تھائی لینڈ کی ایک عدالت نے بادشاہت کے خلاف تبصرے کرنے پر ایک شخص مونگ کھون تھراکوٹ کو 50 سال قید کی سزا سنائی ہے جو کہ ملک کے بدنام زمانہ لیس میجسٹی قانون کے تحت سنائی جانے والی اب تک کی سب سے بڑی سزا ہے۔
تھائی لینڈ کے 30 سالہ مونگ کھون تھراکوٹ کو اصل میں بادشاہت کے خلاف فیس بک پر 3 سال قبل کی گئی پوسٹس پر 28 سال کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن جمعرات کو ایک اپیل کورٹ نے اس کی سزا میں 22 سال کا اضافہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ تھائی لینڈ کا لیس میجسٹ قانون بادشاہت کے بارے میں کسی بھی منفی تبصرے کو مجرم قرار دیتا ہے، یہ قانون(جس پر بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے) 10 سالوں میں پہلی بار کسی سویلین حکومت کے آخری سال انتخابات کے باوجود ابھی تک نافذ العمل ہے۔
تھائی لینڈ میں یہ قانون بادشاہ، ملکہ، جانشینوں اور شاہی خاندان کے دیگر افراد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، اس قانون کے تحت بادشاہ یا شاہی خاندان میں سے کسی کی توہین یا تضحیک پر تین سے 15 برس کی قید ہوسکتی ہے۔
مونگ کھون تھراکوٹ کے خلاف جمعرات کو ہونے والی سماعت میں جج نے کہا کہ وہ مجرم کے تعاون پر مبنی رویے کی وجہ سے پہلے ہی اس کی سزا میں ایک تہائی کمی کر چکے ہیں۔
مونگ کھون تھراکوٹ کا تعلق تھائی لینڈ کے صوبے چیانگ رائی سے ہے اور وہ آن لائن کپڑے فروخت کرتا ہے، جس کو سزا سنانے والے جج نے فیس بک پر اس کے متعدد تبصروں کا حوالہ دیا۔
عدالت کے مطابق مونگ کھون تھراکوٹ نے 27 فیس بک پوسٹس کی تھیں۔ ان میں سے 14 پوسٹس شاہی خاندان سے متعلق قانون کی خلاف ورزی قرار دی گئیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تھائی لینڈ کی عدالتیں عام طور پر ہر سوشل میڈیا پر انفرادی پوسٹ کے لیے اضافی سزاؤں کا ڈھیر لگاتی ہیں۔
لیس میجسٹ قانون کو 2019 میں کنگ وجیرالونگ کورن کے دور حکومت کے آغاز میں مختصر طور پر معطل کر دیا گیا تھا، لیکن 3سال قبل طلبا کی زیرقیادت ملک میں جمہوریت کے بے مثال مظاہروں کے شروع ہونے کے بعد سے اسے بحال کیا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے۔
عدالت نے ایک اور شخص آرنون نمپا کی سزا میں چار سال کا اضافہ کیا ہے، جس نے سب سے پہلے بادشاہت کے بارے میں عوامی بحث کا مطالبہ کیا تھا۔