پاکستان میں گزشتہ برس صارفین کو متعدد بار انٹرنیٹ کی بندش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان میں یوں تو انٹرنیٹ بندش ایک معمول کا حصہ رہی ہے۔ جیسا کہ ہمیشہ سے جب بھی کوئی مذہبی یا قومی تیوہار کے موقع پر انٹرنیٹ کی بندش یا محدود رسائی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ سیکیورٹی تھریٹس کو مد نظر رکھتے ہوئے انٹرنیٹ کو بند کرنا مجبوری ہے۔ اور اب یہ قدم روایت کا حصہ بن چکا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس ملک میں پہلے 6 ماہ میں 3 بار انٹرنیٹ بندش کی گئی۔ اس کے علاوہ 17 دسمبر کو ایک بار پھر سے پاکستان تحریک انصاف کے ورچوئل جلسے کے دوران صارفین کو انٹرنیٹ بندش کا سامنا کرنا پڑا، سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس، یوٹیوب، انسٹاگرام، فیس بک سمیت تمام سوشل میڈیا ایپس کی بندش دیکھنے میں آئی۔
پاکستان میں متعدد بار انٹرنیٹ کی بندش کے بعد ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک کمپنی ‘سرف شارک’ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2023 کے پہلے 6 ماہ میں پاکستان، ایران اور بھارت کے بعد انٹرنیٹ کی بندش کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہا۔ رپورٹ کے مطابق ان ممالک کی حکومتوں کی جانب سے انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں کی بڑی وجہ احتجاج تھے۔
انٹرنیٹ بندش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انٹرنیٹ کی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی نے بتایا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ بندش پرانی روایت ہوچکی ہے۔ مذہبی تیوہاروں میں انٹرنیٹ بندش کو ہمیشہ لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ میں انٹرنیٹ بندش سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر بھی ہوتی رہی ہے، جیسا کہ اگست 2022 میں لیاقت باغ میں عمران خان کی جلسے میں جو تقریر تھی وہ تمام لوگ جو آن لائن اس تقریر کے منتظر تھے نہیں سن پائے، کیونکہ اس وقت انٹرنیٹ تھروٹلنگ کی گئی۔ اور ’انٹرنیٹ تھروٹلنگ‘ میں انٹرنیٹ کی رفتار جان بوجھ کر کم کر دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں متعلقہ پیچ یا تو بہت دیر سے کھلتا ہے یا ایرر آجاتا ہے۔ اس وقت بھی یہی ہوا کہ انٹرنیٹ کی کوالٹی اتنی خراب تھی کہ جن کی تقریر تک رسائی تھی وہ بھی جملے اور الفاظ ٹھیک سے سن نہ سکے۔
اسامہ خلجی نے مزید کہا کہ مئی 2010 میں بھی انٹرنیٹ بندش کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں کچھ دیر کے لیے فیس بُک کو بلاک کیا گیا تھا جبکہ یوٹیوب کو 3 سال کے لیے بلاک کیا گیا تھا۔ بعض اوقات پاکستان میں نیٹ اس لیے سست نہیں کیا جاتا کیونکہ نیٹ کی رفتار پہلے سے ہی سست نہیں ہوتی بلکہ کی جاتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اسامہ خلجی کا کہنا تھا کہ ’مئی 2023 میں انٹرنیٹ کی بندش مسلسل 4 دن تک ہوئی، اس کے علاوہ گزشتہ ماہ بھی 2 بار انٹرنیٹ بندش کا سامنا کرنا پڑا‘ کہتے ہیں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، پچھلے سال بھی انٹرنیٹ بندش میں دیکھا، کبھی یوٹیوب بلاک ہوجاتی تھی اور کبھی ایکس(ٹوئٹر) بلاک ہو جاتا تھا۔ تو جب بھی پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیاں ہوتی ہے تو انٹرنیٹ بلاک ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
کیا انٹرنیٹ بندش واقعی کسی ناگہانی صورتحال سے محفوظ رکھ سکتی ہے؟ اس بارے میں اسامہ خلجی کہتے ہیں مذہبی (محرم، ربیع الاؤل وغیرہ) اور قومی (14 اگست، 23 مارچ) تیوہاروں پر انٹرنیٹ کی بندش بہت معمولی بات ہے۔ لیکن انٹرنیٹ بندش سے سیکیورٹی کے حالات مزید خراب ہوتے ہیں، کیونکہ رابطہ منقطع ہو جاتا ہے، کوئی بیمار ہے تو ایمبولینس نہیں بلا سکتے، اور معلومات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں پتا ہوتا کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔
مزید پڑھیں
’الیکٹرانک میڈیا تو کنٹرولڈ ہے اور ٹائم بھی لگ جاتا ہے، لیکن ٹوئٹر پر فوری آپ کو کسی بھی مسئلے کے حوالے سے معلومات مل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سیکیورٹی کو سیکیورٹی ایجنسیاں یقینی بنائیں، انٹرنیٹ کو بند کر دینا تو حل نہیں ہے۔‘
واضح رہے کہ ‘سرف شارک’ کی ایک اور رپورٹ کے مطابق 2024 میں 90 ممالک انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں۔ کچھ ممالک میں یہ تیاریاں انٹرنیٹ بندش کے ساتھ جاری ہیں۔ حتیٰ کے اس طرح کی پابندیاں انتخابات کی سالمیت اور شفافیت پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ کیونکہ اس سے حکومت کو عوامی بیانیے پر زیادہ کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے 2024 میں بھارت، پاکستان، موریطانیہ، افریقہ، مالی، مالوی، چاڈ، ایران اور بنگلہ دیش وہ ممالک ہیں جن میں انتخابات کے دوران انٹرنیٹ کی پابندیوں کی تاریخ ہے۔ جس کی وجہ سے وہ آئندہ انتخابات میں بھی مزید رکاوٹوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔
واقعی آئندہ انتخابات میں انٹرنیٹ بند ہو جائے گا؟
اس حوالے سے سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اعزاز سید کہتے ہیں کہ ’میں نے کچھ پروگرامز میں یہ بات کہی تھی کہ ٹیبل پر یہ بات ہوئی ہے کہ انٹرنیٹ الیکشن والے دن یا ایک، 2 دن پہلے بند کیا جا سکتا ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق حکومت سنجیدگی سے اس پر غور کر رہی ہے۔ کیونکہ حکومت سمجھ رہی ہے فیک نیوز اور پروپیگنڈہ کے طور پر اسے ہتھیار کے طعر پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے الیکشن کمیشن کی اجازت چاہیے یا نہیں، یہ وقت بتائے گا، مگر اس کے حوالے سے بہت سنجیدگی سے غور فکر کیا گیا ہے۔‘
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ جب بھی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہوتی ہے توانٹرنیٹ بند کیا جاتا ہے، اور اس کی تاریخ بھی رہ چکی ہے، بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جب لاء اینڈ آرڈر ہوا ہے اور پھر انٹرنیٹ کو بند کیا گیا ہے۔’اس بار انتخابات میں ایک تو فیک نیوز بہت بڑا چیلنج ہے، جس کو یہ سمجھتے ہیں کہ انٹرنیٹ بند کرکے کم کیا جا سکتا ہے، یہ فیصلہ درست ہے یا غلط وہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن حکومت اس بارے میں سوچ رہی ہے۔‘
اس بارے میں بات کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ایک ذمہ دار کا کہنا تھا کہ الیکشن کے دوران انٹرنیٹ بندش کا ان سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔’یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے آپریشن کے دوران بجلی چلی جائے، واپڈا والے اسپتال سے پوچھ کر بجلی بند نہیں کرتے، اسی طرح انٹرنیٹ بندش کا تعلق الیکشن کمیشن سے نہیں ہے، باقی جہاں تک انٹرنیٹ بندش کے انتخابات پر اثرات کی بات ہے تو انتخابات پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔‘
انٹرنیٹ بندش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی ترجمان کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے کو فی الحال حکومت کی جانب سے اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ پی ٹی اے کو حکومت کی جانب سے کوئی ہدایت کی جاتی ہے تو ہی پی ٹی اے انٹرنیٹ بند کرتا ہے۔
انتخابات میں انٹرنیٹ بندش کے جمہوریت اور انتخابات پر کیا اثرات ہوں گے؟
انتخابات کے دوران انٹرنیٹ کی بندش کے جمہوریت پر اثرات کے حوالے سے اعزاز سید کہتے ہیں کہ جس طرح کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اس کا جمہوریت پر کیا اثر ہوگا۔ باقی انٹرنیٹ بندش کی وجہ سے واقعی جمہوریت پر بہت برا اثر پڑے گا۔
اسی بارے میں بات کرتے ہوئے اسامہ خلجی نے بتایا کہ انتخابات میں اگر انٹرنیٹ بندش ہوتی ہے تو اس کا بہت برا اثر ہوگا، کیونکہ معلومات تک رسائی اور اظہار رائے جمہوری حق ہے۔ اور انہی دونوں حقوق کو چھینا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ حلقہ بندیاں بدلی گئی ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے افراد کو علم ہی نہیں ہے کہ ان کے پولنگ بوتھس کہاں ہیں، وہ لوگ تو انٹرنیٹ پر ہی سرچ کریں گے، لیکن اگر انٹرنیٹ ہی نہیں ہوگا تو اس کا اثر ٹرن آؤٹ پر بھی ہوگا۔