پاکستان میں اسپورٹس انفراسٹرکچر کی بدحالی کی وجوہات کیا ہیں؟

پیر 22 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کھیل کے میدانوں میں پاکستان کی طویل عرصے کی عالمی تنہائی ختم ہو چکی، پاکستان گزشتہ 4 سالوں سے مستقل بنیادوں پر انٹرنیشنل کرکٹ، اسکواش اور ٹینس سمیت دیگر کھیلوں کی میزبانی کر رہاہے۔

2 سالوں میں پاکستان نے 2 بڑے عالمی ایونٹس کی میزبانی کرنی ہے۔ جن میں رواں سال ساؤتھ ایشین گیمز جبکہ 2025 میں دنیائے کرکٹ کی 8 بڑی ٹیموں پر مشتمل چیمپیئنز ٹرافی شامل ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ 2 دہائیوں سے اسپورٹس انفراسٹرکچر کا کوئی بڑا منصوبہ سامنے نہیں آیا جبکہ پشاور میں زیرتعمیر کرکٹ اسٹیڈیم کو چھوڑ کر آخری کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر کو بھی دہائیاں گزر چکی ہیں۔ کیا پاکستان کرکٹ، ہاکی، فٹ بال سمیت دیگر عالمی کھیلوں کی میزبانی کے لیے مناسب انفراسٹرکچر رکھتا ہے یا پاکستان کے موجودہ اسپورٹس انفراسٹرکچر کا معیار کیا ہے۔ وی نیوز نے ان سوالوں کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔

اسلام آباد اسپورٹس کمپلیکس عالمی معیار کے ایونٹ کی میزبانی کے قابل نہیں، ڈاکٹر اخترنواز

پاکستان میں اسپورٹس کا سب سے بڑا انفراسٹرکچر اسپورٹس کمپلیکس اسلام آباد 1980 میں چائنہ کنسٹریکشن کمپنی نے تعمیر کیا۔ تعمیر و مرمت کا مربوط نظام نہ ہونے کی وجہ سے کمپلیکس کے مختلف اسپورٹس سینٹرز عالمی مقابلوں کی میزبانی سے کے قابل نہیں۔ پاکستان نے چند ماہ بعد ساؤتھ ایشین گیمز کے متعدد ایونٹس کی میزبانی بھی اسی کمپلیکس میں کرنی ہے جس کے لیے گزشتہ 4 سالوں میں خطیر رقم خرچ کی گئی ہے۔

کیا اسپورٹس کمپلیکس ریجنل یا انٹرنیشنل سطح کے ایونٹ کی میزبانی کر سکتا ہے؟

اس حوالے سے پاکستان اسپورٹس بورڈ کی طویل عرصے تک سربراہی کرنے والے ڈاکٹر اختر نواز گھنجیرا نے وی نیوز کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسپورٹس کمپلیکس کھیلوں کا بہت بڑا انفراسٹرکچر ہے، یہ ریجنل ایونٹ کی میزبانی تو کر سکتا ہے مگر کسی بھی انٹرنیشنل ایونٹ کی میزبانی یہاں ممکن نہیں۔ اس کا معیار عالمی سطح سے کہیں کم ہے۔

ڈاکٹر اختر نواز کے مطابق ایک انٹرنیشنل اسپورٹس سینٹر کے لیے درکار کئی سہولیات اسپورٹس کمپلیکس میں دستیاب نہیں۔ پورے پاکستان میں ایک بھی ایئر کنٹرول انڈور اسپورٹس ہال نہیں، بلکہ اسپورٹس کمپلیکس اسلام آباد کا سب سے بڑا اسپورٹس سینٹر لیاقت جمنازیم تو ایئرکنڈیشن تک سے محروم ہے۔

اسپورٹس کمپلیکس کو ریجنل معیار کے برابر بھی قرار نہیں دیا جا سکتا، عبدالمحئی شاہ

سینیئر سپورٹس جرنلسٹ عبدالمحئی شاہ کے مطابق اگر چہ اسپورٹس کمپلیکس میں تقریباً تمام ہی بڑے کھیلوں کے لیے سینٹرز موجود ہیں مگر اپ گریڈیشن کے منصوبوں میں عدم شفافیت اور منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے بدقسمتی سے اس کو عالمی معیار تو کیا شاید ریجنل معیار کے مطابق بھی نہیں قرار دیا جاسکتا۔

’پی سی بی 90 کی دہائی کے مائنڈ سیٹ سے باہر نہیں نکل پایا‘

کرکٹ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، 2007 میں سری لنکن ٹیم پر لاہور میں ہونے والے حملے کے بعد طویل عرصے تک انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان سے روٹھی رہی مگر گزشتہ 4 سالوں میں پاکستان بتدریج انٹر نیشنل کرکٹ کی میزبانی واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔

اگر چہ ابھی تک باہمی سیریز ہی پاکستان میں کھیلی گئی ہیں جبکہ ایشیا کپ کے کچھ میچز کی میزبانی لاہور اور ملتان نے کی مگر اب پاکستان کرکٹ بورڈ کی نظریں ملٹی ٹیمز ایونٹس کی میزبانی پر مرکوز ہیں۔ اس سلسلے میں پہلا بڑا ایونٹ چیمپیئنز ٹرافی ہے جس کی میزبانی پاکستان نے 2025 میں کرنی ہے۔ اس وقت پاکستان کے پاس صرف 4 فعال کرکٹ سینٹرز موجود ہیں جن میں کراچی نیشنل اسٹیڈیم، قدافی اسٹیڈیم لاہور، ملتان اسٹیڈیم اور راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم شامل ہیں۔

پی سی بی نے لاہور اور کراچی کے اسٹیڈیم کی بحالی پر خرچہ کیا ہے۔ جبکہ راولپنڈی اور ملتان ملٹی ٹیمز مقابلوں کی میزبانی کے لیے انٹرنیشنل سٹینڈرز کو ‘میٹ’ نہیں کرتے۔

عبد المحئی شاہ کے مطابق پاکستان میں کرکٹ اسٹیڈیمز کے حوالے سے پی سی بی کا مائینڈ سیٹ 80 اور 90 کی دہائی والا ہے۔ راولپنڈی اسٹیڈیم جو درجنوں انٹر نیشنل میچز کی میزبانی کر چکا ہے اس کی ٹوٹل کیپسٹی 17ہزار ہے جبکہ اس کو 50 ہزار سے اوپر ہونا چاہیے تھا۔ پی سی بی کی اسٹیڈیمز کی بحالی اور نئے میدانوں کی تعمیر کے حوالے سے کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آتی۔ اب یہ بات یقینی ہے کہ چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی 4 ہی شہر کریں گے۔

’ اسلام آباد انٹر نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم سے محروم واحد دارالحکومت‘

دنیا میں کرکٹ کھیلنے والے تمام بڑے ممالک میں اسلام آباد واحد دارالحکومت ہے جہاں انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم نہیں ہے۔ جدید ترین خطوط پر بنائے گئے اس شہر میں پاکستان کے پسندیدہ ترین کھیل کی میزبانی کی اہلیت کیوں نہیں؟ ماضی میں اس حوالے سے کیا کوششیں ہوئی ہیں اور اب تک یہ ناکام کیوں ہیں۔

سی ڈی اے اپنے وسائل سے کرکٹ اسٹیڈیم تعمیر نہیں کر سکتا، ڈائریکٹر اسپورٹس

وی نیوز کے ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وفاقی ترقیاتی ادارے کے ڈائریکٹر اسپورٹس کاشف شاہ نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں اسلام آباد میں انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم نہ ہونا ایک بڑی کمی ہے مگر سی ڈی اے صرف اپنے وسائل سے یہ میگاپراجیکٹ تعمیر نہیں کر سکتا۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت، پی سی بی سمیت سب کو ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں میگا اسپورٹس اسٹیڈیم کی تعمیر میں رکاوٹ کیا ہے؟

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انٹرنیشنل معیار کے اسٹیٹ آف دی آرٹ کرکٹ اسٹیڈیم کا منصوبہ کئی بار زیر غور آیا، وفاقی حکومت اور پی سی بی کے تحت متعدد اجلاس ہو چکے ہیں مگر در حقیقت یہ منصوبہ اب تک کاغذوں سے آگے نہیں بڑھ سکا اور بدستور ’پائپ لائن ‘ میں موجود ہے۔

یوں اسلام آباد اُن بڑے ممالک میں سے واحد ملک ہے جس کا دارالخلافہ انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کی سہولت سے محروم ہے۔

اسلام آباد میں سب سے پہلے کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر کا منصوبہ 2011 میں اس وقت کے چیئرمین سی ڈی اے ٹاسک فورس فیصل سخی بٹ کی طرف سے بنایا گیا۔ ابتدائی طور پر شکرپڑیاں کے مقام پر زمین کی نشاندہی کی گئی مگر بعد میں یہ منصوبہ ٹھپ ہو گیا، اب یہ زمین پاکستان آرمی کے زیر انتظام ہے۔

بعد میں چیئرمین پی سی بی نجم سیھٹی اور ذکا اشرف کی طرف سے بھی اسٹیڈیم کی تعمیر کی کوششیں کی گئیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے 2022 میں چیئرمین پی سی بی رمیز راجا کو 2025 میں چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی کے پیش نظر اسٹیڈیم بنانے کا ٹاسک دیا۔ اس حوالے سے سی ڈی اے کو زمین الاٹ کرنے کی ذمہ داری بھی دی گئی مگر اب تک یہ منصوبہ حقیقت سے اوجھل ہے۔

’عالمی مقابلوں کی میزبانی کو ترستا دنیا کا سب سے بڑا ہاکی اسٹیڈیم‘

لاہور کا نیشنل ہاکی اسٹیڈیم دنیا کا سب سے بڑا ہاکی اسٹیڈیم ہے جس میں تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش 75 ہزار سے بھی زیادہ ہے مگر پاکستان ہاکی فیڈ ریشن طویل عرصے سے کوئی ریجنل یا انٹرنیشنل ایونٹ کی میزبانی نہیں کر سکی۔

لاہور کے علاوہ اسلام آباد کے نصیر بندھ ہاکی اسٹیڈیم کی ٹرف تو اگر چہ تبدیل کی گئی ہے مگر دیگر انفراسٹرکچر کسی ملٹی ٹیم ایونٹ کی میزبانی کے قابل نہیں ہے۔

عبدالستار ایدھی ہاکی اسٹیڈیم کی تعمیرنو کا منصوبہ پائپ لائن میں ہے، طارق بگٹی

کیا پی ایچ ایف ہاکی انفراسٹرکچر پر کام کر رہی ہے؟ اس حوالے سے پی ایچ ایف کے صدر طارق بگٹی نے بتایا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے پاس اپنا ذاتی اسپورٹس انفراسٹرکچر موجود نہیں تاہم سندھ حکومت کی جانب سے عبدالستار ایدھی ہاکی اسٹیڈیم کراچی کی تعمیر نو کا منصوبہ پائپ لائن میں ہے جس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے بینر تلے میں انٹرنیشنل معیار کا اسپورٹس اسٹیڈیم قائم کیا جاسکے۔

کوئی ایسا اسٹیدیم نہیں جہاں انٹرنیشنل ایونٹ کرایا جا سکے، علی عباس

اس حوالے سے ایگزیکٹیو سیکریٹری پی ایچ ایف علی عباس نے وی نیوز کو بتایا کہ پی ایچ ایف کے پاس کوئی ایسا اسٹیڈیم نہیں ہے جہاں انٹرنیشنل ایونٹ کروایا جا سکے۔ حال ہی میں اولمپک کوالیفائر کی میزبانی پاکستان کو ملی تھی جو بعد میں واپس لے لی گئی تھی۔

بلوچستان، خیبر پختوا کسی بھی کھیل کے عالمی مقابلے کی میزبانی نہیں کر سکتے

پاکستان میں کھیلوں کے انفراسٹرکچر کے حوالے سے پنجاب اور سندھ بالخصوص کراچی کا معیار بہتر ہے مگر بلوچستان اور خیبرپختونخوا دونوں صوبے انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے کرکٹ سمیت کسی بھی عالمی کھیل کی میزبانی کے اہل نہیں ہیں۔ جہاں ایک طرف سیکیورٹی صورتحال بڑی رکاوٹ ہے تو وہیں معیاری انفراسٹرکچر بھی ایک مسئلہ ہے۔

حال ہی میں پشاور میں انٹرنیشنل اسٹیڈیم کی تعمیر شروع کی گئی ہے مگر نہ تو اس سال پی ایس ایل کا کوئی میچ وہاں رکھا گیا ہے اور نا ہی مستقبل قریب میں کسی انٹرنیشنل سیریز کی میزبانی کے امکات ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی کسی بھی اسپورٹس کے عالمی مقابلوں کی میزبانی کے انعقاد کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس سال نیشنل گیمز کے متعدد ایونٹس کوئٹہ میں منعقد کیے گئے مگر کھلاڑیوں کے لیے سہولیات کا فقدان درد سر بنا رہا۔

’پاکستان کا خطے کے دیگر ممالک کے اسپورٹس انفراسٹرکچر سے تقابل‘

پاکستان کے مقابلے میں بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے پاس بہتر اسپورٹس انفراسٹرکچر موجود ہے۔ انڈیا 2036 اولمپکس مقابلوں کی میزبانی کا خواہشمند ہے۔ بھارتی وزیراعظم اس حوالے سے اعلان کر چکے ہیں کہ انڈیا کا اسپورٹس انفراسٹرکچر اس معیار کو پہنچ گیا ہے کہ ہم اولمپکس مقابلوں کی میزبانی کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب بھارت مسلسل انٹرنیشنل کرکٹ ایونٹس کی میزبانی کر رہا ہے۔ 2023 میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلے بھارت کے 10 انٹر نیشنل کرکٹ سینٹرز پر کھیلے گئے۔ پاکستان کی طرف سے انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے سیف گیمز کی میزبانی سے دستبرداری کی بھی اطلاعات ہیں۔

دوسری جانب سری لنکا اسی ہی ایونٹ کی میزبانی کے لیے پر تول رہا ہے۔عبد المحئی شاہ کے مطابق انڈیا نے گزشتہ 10 سالوں میں اربوں ڈالر انفراسٹرکچر پر خرچ کیے ہیں اور اس کے نتائج بھی سامنے ہیں۔ یہی حال سری لنکا کا بھی ہے۔ ساؤتھ ایشین گیمز اگر پاکستان میں نہ ہوئے تو سری لنکا اس کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے کہیں چھوٹے سری لنکا کے پاس 8 ٹیسٹ سینٹر موجود ہیں۔ جبکہ پاکستان کے پاس راولپنڈی سمیت ٹوٹل 4 فعال ٹیسٹ سینٹرز ہیں۔

وفاقی وزارت کھیل کی صوبوں کو منتقلی مسائل پیدا کررہی ہے، عبدالمحئی شاہ

کیا پاکستان میں اسپورٹس انفراسٹرکچر کی تعمیر میں فنڈز کی کمی رکاوٹ ہے۔ اس حوالے سے عبد المحئی شاہ نے وی نیوز کو بتایا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد کھیلوں کی وزارت اور تمام تر فنڈز صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔ اس منتقلی کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اسپورٹس انفراسٹرکچر کا تقریباً سارا ہی بجٹ صوبوں کو جا رہا ہے۔ اگر پنجاب کی مثال لیں تو اس کا سالانہ اسپورٹس بجٹ 12 ارب تک ہے مگر گزشتہ 6 سالوں میں اسپورٹس انفراسٹرکچر میں کیا ہوا ہے یہ ہمارے سامنے ہے۔ یہی حال دوسرے صوبوں کا بھی ہے۔

پارلیمان کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کم از کم کھیلوں کے حوالے سے معاملات دوبارہ وفاق کے حوالے کیے جائیں تاکہ بہتر ’ کوارڈینیشن‘ کے ساتھ پیسہ خرچ کیا جا سکے اس کا مطلب یہ ہے کہ فنڈز کی کمی بڑا مسئلہ نہیں۔

کیا 18ویں ترمیم اسپورٹس انفراسٹرکچر کی تعمیر میں رکاوٹ ہے، ڈاکٹر اختر نواز اس موقف سے متفق نہیں، سابق ڈی جی اسپورٹس بورڈ کے مطابق اصل مسئلہ درکار فنڈز کا شفافیت کے ساتھ خرچ کرنے کا ہے۔ ’میرا خیال ہے صوبائی اداروں کے پاس فنڈز خرچ کرنے کی صلاحیت ہی محدود ہے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp