خواتین کے عالمی دن کے موقع پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ’عورت مارچ‘اور کراچی میں ’واک‘ کا اہتمام کیا گیا۔ اسلام آباد میں ’عورت مارچ‘ میں بدنظمی اور پولیس کا لاٹھی چارج بھی دیکھنے میں آیا۔
اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر منعقدہ روایتی ’عورت مارچ‘ میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین شریک ہوئیں۔
پریس کلب جانے والے تمام راستوں کو خاردار تاریں اور کنٹینرز لگا کر بند کردیا گیا تھا جس کے باعث ’عورت مارچ‘ میں شرکت کے لیے آنے والی خواتین کو پریس کلب پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پریس کلب کے باہر موجود عورت مارچ میں شریک خواتین اور پولیس اہکاروں کے درمیاں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ بیشتر منتظم خواتین نے آگے بڑھ کر خاردار تاریں ہٹا دیں اور نعرے بازی بھی کی۔ان کا مؤقف تھا کہ سڑک پر احتجاج کرنا ان کا بھی حق ہے۔
تناؤ کی فضا میں ایک موقع پر اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد ندیم بخاری کی موجودگی میں پولیس نے کنٹینرز کے درمیان خاردار تاروں کو عبور کرتی خواتین پر لاٹھی چارج بھی کیا۔
عورت مارچ میں شریک خواتین نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر نسوانی حقوق کے حق میں مختلف نعرے درج تھے۔
اس موقع پر افغان مہاجر خواتین نے بھی اپنا علیحدہ بینر اٹھا کر شرکت کی اور مہاجرین کے حقوق کو انسانی حقوق قرار دیتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے UNHCR سے پاکستان میں مقیم مہاجرین خصوصاً افغان خواتین کے مسائل کے حل پر زور دیا۔
وی نیوز نے مارچ میں موجود کچھ خواتین سے انکے مطالبات جاننے کی کوشش کی۔وی سے بات کرتے ہوئے مارچ میں شریک آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ انکا عورت مارچ میں شریک ہونے کا مقصد جبری گمشدگی ہے انھوں نے بتایا کہ ’میرے اپنے شوہر 19 سال سے جبری گمشدہ ہیں اور میں آج کے دن ان خواتین کی نمائیندگی کر رہے ہیں جن کے شوہر،بھائی اور بیٹے جبری اٹھائے گئے ہیں۔ اور اب وہ اکیلی اس دنیا اس معاشرے اور حکومت کا مقابلہ کر رہی ہیں اور اکیلی دنیا تک اپنی سچائی کی آواز پہنچا رہی ہیں۔
عورت مارچ کی آرگنائزر نے کہا کہ ’ ہم اپنے مارچ سے اس چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ قدرتی آفات سے جو خواتین متاثر ہو رہی ہیں حکومت خواتین کو پالیسی سازی میں لے کر آئے تا کہ خواتین کے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کیا جا سکے۔ حالیہ سیلاب کہ وجہ سے خواتین اب تک بنیادی حقوق کے مسائل کا شکار ہیں انکے پاس ہیلتھ ، تحفظ ، ہراسگی جیسے مسائل در پیش ہیں ۔
دوسری طرف کراچی میں جماعت اسلامی کے شعبہ خواتین نے 8 مارچ کی مناسبت سے واک کی جب کہ خواتین حقوق کی علمبردار شیما کرمانی و دیگر نے ایک پریس کانفرنس کے دوارن عورت مارچ رواں ماہ کی 12 تاریخ کو منعقد کرنے کا اعلان کیا۔
جماعت اسلامی کی خواتین رہنماؤں نے کراچی پریس کلب کے باہر اپنے اجتماع میں کہا کہ پاکستان میں عورت کا سب سے بڑا مسئلہ عورت کی عزت اور اس کی جان کا تحفظ ہے۔
قبل ازیں جماعت اسلامی کی خواتین ورکرز کی ایک معقول تعداد متعدد گاڑیوں میں کراچی پریس کلب پہنچی اور خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے سڑک پر واک کی۔
دریں اثنا خواتین کے حقوق کی علمبردار شیما کرمانی، اقلیتوں کی نمائندہ پاسٹر غزالہ شفیق اور خواجہ سراؤں کی رہنما شہزادی سمیت دیگر نے کراچی پریس کلب میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اتوار کو عورت مارچ کے انعقاد کا اعلان کیا۔یہ مارچ کراچی کے علاقہ بزنس گارڈن میں منعقد ہوگا۔
اپنے خطاب میں شیما کرمانی کا کہنا تھا کہ حکومت نے خواتین کے عالمی دن پر اسلام آباد میں سیمینار رکھا جس میں اس شخص کو گیسٹ آف آنر بلایا جو خود مبینہ طور پر خواتین کے اغوا میں ملوث ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت ایسی کسی تقریب میں خاص مہمان بلاتے وقت اچھی طرح غور کر لیا کرے۔
شیما کرمانی نے کہا ان کی کوشش یہ ہے کہ ہر مرتبہ عورت مارچ کا وینیو تبدیل کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد ان مسائل سے آگاہ ہوسکیں۔
اس موقع پر پاسٹر غزالہ شفیق نے حکومت پر زور دیا کہ جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ روز قبل شریعت کورٹ نے 18 سال سے کم عمر لڑکے کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا ہے جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔
شہزادی نے کہا کہ حکومت ابھی تک خواجہ سراؤں کی شناخت کے حوالے سے مخمصہ کا شکار ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ
خواجہ سراؤں نے ایک مدت گمنام زندگی گزاری ہے لیکن اب یہ اپنے حق کےلیے آواز اٹھائیں گے۔