استحکام پاکستان پارٹی ( آئی پی پی ) کے سربراہ جہانگیر ترین نے دعویٰ کیا ہے کہ ’آئی پی پی ‘ کا منشور سب سے بہترین ہے، عوام نے موقع دیا تو ملک کا نقشہ بدل دیں گے۔
پیر کو ایک ٹی وی انٹرویو میں آئی پی پی کے سربراہ جہانگیر ترین نے کہا کہ ہار جیت اللہ کی مرضی ہے، ہم صرف کوشش کرتے ہیں، میں واپس اپنے حلقے میں آیا ہوں تو عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، عوام کو امید ہے کہ جو کام مجھے نا اہل قرار دیے جانے کے باعث رک گئے تھے وہ اب دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ لودھراں میں مجھے میرے حلقے کے عوام کی جانب سے مجھے بہت اچھی حمایت مل رہی ہے، لوگوں کا ہمارے لیے جوش و خروش بھی اچھا ہے اور ہمیں جیتنے کی اُمید بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں سیاست میں آنے سے پہلے سماجی کام ہی کیا کرتا تھا اور مجھے سماجی کام کرنے کا بے انتہا شوق بھی ہے۔ اللہ نے وسائل بھی دیے ہیں اور یہ وسائل میں خرچ بھی کر رہا ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ سیاست دان کی جانب سے بات سننے، مسائل کو حل کرنے اور اہمیت دینے سےلوگ متاثر ہوتے ہیں۔
کوئی وجہ نہیں تھی، مجھے زبردستی نا اہل کروایا گیا
ایک اور سوال کے جواب میں آئی پی پی کے پیٹر انچیف کا کہنا تھا کہ انہیں نا اہل قرار دیے جانے کی کوئی وجہ نہیں تھی، مجھے زبردستی نا اہل قرار دیا گیا جسے میں ’ غیر متوازن فیصلے ‘ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا۔ ایسا کس نے کیا یہ بتا نہیں سکتا تاہم ایسا وہی کرتے ہیں جو طاقت میں ہوتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ یہ لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ فیصلے پہلے سے ہی لکھے ہوتے ہیں، یہ بات کوئی نہیں مانتا لیکن حقیقت یہی ہے۔ ایسا ہونا افسوس کی بات ہے۔ اللہ کا کرم ہے کہ میں نا اہلی سے نکل آیا ہوں۔
ملک کی بہتری کے لیے اور سیاسی نظام کو بدلنے نکلے تھے
عمران خان کے ساتھ جو کیا اس پر مطمئن ہوں، ہم ملک کی بہتری کے لیے اور سیاسی نظام کو بدلنے نکلے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس جدوجہد کے لیے ہم نے ایک ساتھ مل کر کام کرنا چاہا تھا وہ جیسے ہی بانی پی ٹی آئی وزیراعظم بنے تو چیزیں فوری بدلنا شروع ہو گئیں۔
عمران خان پہلے کھلے ڈھلے اور مثبت انسان تھے لیکن جوں ہی وہ وزیر اعظم بنے تو وہ بدل گئے شاید اس لیے کہ ان پر وزیر اعظم بننے کا ’خمار ‘ چڑھ گیا تھا۔ وزیراعظم بننے کے بعد بانی پی ٹی آئی متکبر ہو گئے، جیسے انہوں نے بڑا کمال کیا ہو۔
ایک سوال کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ یہ لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ فیصلے پہلے سے ہی لکھے ہوتے ہیں، یہ بات کوئی نہیں مانتا لیکن حقیقت یہی ہے۔ ایسا ہونا افسوس کی بات ہے۔ اللہ کا کرم ہے کہ میں نا اہلی سے نکل آیا ہوں۔
عمران خان کے ساتھ جو کیا اس پر مطمئن ہوں، ہم ملک کی بہتری کے لیے اور سیاسی نظام کو بدلنے نکلے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس جدوجہد کے لیے ہم نے ایک ساتھ مل کر کام کرنا چاہا تھا وہ جیسے ہی بانی پی ٹی آئی وزیراعظم بنے تو چیزیں فوری بدلنا شروع ہو گئیں۔
بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم بننے کے بعد متکبر ہو گئے تھے
عمران خان پہلے کھلے ڈھلے اور مثبت انسان تھے لیکن جوں ہی وہ وزیر اعظم بنے تو وہ بدل گئے شاید اس لیے کہ ان پر وزیر اعظم بننے کا ’خمار ‘ چڑھ گیا تھا۔ وزیراعظم بننے کے بعد بانی پی ٹی آئی متکبر ہو گئے، جیسے انہوں نے بڑا کمال کیا ہو۔
پی ٹی آئی کے دھرنے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہاکہ شہزاد ایس بابر، شہباز گل جیسے لوگ ہر پارٹی میں موجود ہوتے ہیں، یہ لیڈر شپ کی خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو پہچانے اور ان کا محاسبہ کرے اور انہیں غالب نہ آنے دے، پرانے ساتھیوں پر ان کو فوقیت نہ دے۔
عمران خان کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلافات ہوئے
عمران خان کے ساتھ اختلافات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ پارٹی کے کچھ لوگ عمران خان کے پاس جاتے اور انہیں کہتے کہ لوگوں کے کام تو جہانگیر ترین کرتے ہیں اور ان کی شہرت میں اضافہ ہو رہا ہے اور آپ کی ساکھ کو نقصان ہو رہا ہے تو بس اس طرح کی چھوٹی باتوں پر اختلافات پیدا ہونا شروع ہو گئے۔
بشریٰ بی بی سے اختلافات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ خاور مانیکا کے بھائی احمد رضا مانیکا میرے پاس آئے اور کہا کہ بشریٰ بی بی کے عمران خان کے ساتھ رابطے ہیں اور آپ اپنے لیڈر کو بچا لو، احمد رضا مانیکا شاید بشری بی بی کے حوالے سے میرے پاس پیغام لے کر آئے تو میں نے ان کا پیغام بانی پی ٹی آئی کو پہنچا دیا۔ بانی پی ٹی آئی نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا میرے پاس دو راستے تھے یا تو میں چھپ رہتا یا ساری بات عمران خان کو بتا دیتا، میں ساری رات سویا نہیں، تاہم دوسرے روز عمران خان کو علیحدگی میں ساری بات بتائی تو انہوں نے انتہائی ناگواری کا اظہار کیا ظاہر لوگ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بات نہیں کرتے لیکن میں عمران خان کے ساتھ مخلص تھا۔
احمد رضا مانیکا نے بشریٰ بی بی ، عمران سے متعلق ثبوت دیے
احمد رضا مانیکا نے مجھے 2 یا 3 ثبوت بھی دیے، تاہم بانی پی ٹی آئی کے ولیمے پر بشریٰ بی بی سے ملاقات ہوئی، جس میں انہوں نے اس پیغام پر ناراضی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد ہمارے تعلقات میں دراڑ پڑ گئی۔
ایک اور سوال کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ میرے عمران خان کے ساتھ اتنے اچھے تعلقات تھے، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پی ٹی آئی والے میرے بچوں کے ساتھ ایسا سلوک بھی کریں گے، اس پر مجھے بہت افسوس ہوا۔
جہانگیر ترین نے بتایا کہ دھرنے کے دوران عمران خان کے کان میں جو بات کہی تھی وہ راولپنڈی سے آنے والا ایک پیغام تھا جو انہوں نے عمران خان تک پہنچایا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ میری کیوں خلاف ہوئی اس بارے میں کچھ نہیں جانتا، میرا کبھی جنرل باجوہ سے کوئی خاص رابطہ نہیں رہا۔
آزاد امیدواروں کو پارٹی میں خوش آمدید کہیں گے
انہوں نے کہا کہ اگر آزاد اُمیدوار ان کی جماعت میں شامل ہوئے تو وہ انہیں اپنی جماعت میں ’ خوش آمدید‘ کہیں گے۔ پی ٹی آئی کے 9 مئی کے حملے سب سے بڑی احمقانہ غلطی تھی۔ اشتعال دلانے والے ہر پارٹی میں ہوتے ہیں لیکن یہ پارٹی لیڈر کی قابلیت ہوتی ہے کہ وہ ان معاملات کو کیسے سلجھاتا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے بلے واپس لینے سے جماعت کوئی ختم نہیں ہو جاتی، 9 مئی کے واقعات نہ ہوتے تو پی ٹی آئی کے ساتھ شاید ایسا کچھ نہ ہوتا، ہم اس بات کے قائل ہیں کہ انتخابات میں سب کو برابر موقع ملنا چاہیے۔
ضر وری ہے آئندہ بننے والی حکومت کو 5 سال پورے کرے
عام انتخابات ملک کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، پاکستان اور اس کے عوام کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ بننے والی حکومت اپنے 5 سال پورے کرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر کسی کو دو تہائی اکثریت نہیں بھی ملتی تو ہمیں مل جل کر ملک کی ترقی کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ اتحادی حکومت کو اس قابل بنانا ہوگا کہ وہ کام کرے۔
ہمیں موقع ملا یا کوئی بھی رول دیا گیا تو ہم ملک کی بہتری کے لیے ہی کام کریں گے۔ میں عثمان بزدار والے رول کا حامی نہیں ہوں، یہاں ایسا وزیراعلیٰ آنا چاہیے جو صیحیح معنوں میں صوبہ پنجاب کی حالت بدل دے۔