سپریم کورٹ: جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ

منگل 23 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ دنیا میں کیا پریکٹسز ہیں کہ انکوائری کے بغیر جج کو برطرف کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ جج کی آزادی اظہار رائے کے بارے میں وکلا بتائیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ لارجر بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت شامل ہیں۔

شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے دلائل شروع کیے کہ فریقین کے جوابات کے بعد میرا کیس کلیئر ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل انکوائری کے بغیر صدر مملکت کو رپورٹ جمع نہیں کرا سکتی تھی۔ آرٹیکل 209 میں یہی لکھا ہے کہ انکوائری کے بغیر رپورٹ جمع نہیں کرائی جا سکتی۔

چیف جسٹس نے حامد خان سے استفسار کیا کہ اگر الزامات درست ثابت نہیں ہوتے تو کیا آپ کو انکوائری کے بعد برطرف کیا جانا چاہیئے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ جی، میرے معاملے کی فیٸر انکوائری ہونی چاہیے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ آپ کے مؤکل پر الزام کیا ہے؟حامد خان نے بتایا کہ ان کے اوپر تقریر کرنے کا الزام ہے۔ شوکت صدیقی کیخلاف پہلی کارروائی کو کالعدم قرار دیاجائے، اس کے بعد اس معاملے پر کمیشن بنا کر انکوائری کرائی جائے۔

حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ میرے خلاف حکم کو ختم کرے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس معاملے میں سچ کیسے سامنے آ سکتا ہے؟ حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کو انکوائری کمیشن بنانا چاہیئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کس قانون کے تحت کمیشن بنانا چاہیئے؟ حامد خان نے بتایا کہ سپریم کورٹ کمیشن بنا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کیا یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو واپس بھیجا جا سکتا ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ جی، معاملہ واپس کونسل کو بھیجا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم اس معاملے میں کس طرح کا آرڈر جاری کر سکتے ہیں؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فرض کریں الزامات درست ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک جج کو اس طرح کرنا چاہیئے تھا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر تقریروں کی بنیاد پر ججوں کو ہٹایا جائے تو آدھی عدلیہ فارغ ہو جائے گی، کیونکہ ججز بار کونسل سے خطاب کرتے ہیں۔ مسئلہ تقریر کے متن کا ہے۔ یہ کوئی خوشگوار معاملہ نہیں ہے لیکن اس معاملے کا حل بتائیں؟ ہم ایسا نہیں کر سکتے کہ جنرل فیض حمید کو ’تھرو انڈر دی بس‘ کر دیں اور اپنی عدلیہ کے رکن کو بچا لیں۔ خواجہ حارث صاحب کیا ہم کیا کر سکتے ہیں؟

جنرل فیض حمید کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی اب جج نہیں ہیں سپریم جوڈیشل کونسل کو معاملہ نہیں بھجوا سکتے۔ اگر الزامات درست بھی ہیں، تب بھی جج صاحب کو ان الزامات کو پبلک نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون بتائیں کہ کس قانون کے تحت آپ یہ کہہ رہے ہیں۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اس تقریر سے ایک ادارے کو بدنام کیا گیا، جج کو شہرت طلب نہیں ہونا چاہیئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شوکت عزیز صدیقی نے وسل بلو کی، خرابی کی نشان دہی کی، اگر ایک ادارے میں کرپشن ہو تو کیا ہمیں خاموش رہنا چاہیئے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ان کو چیف جسٹس کو لکھنا چاہیئے تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی شہرت نہیں طلب کر رہے تھے خرابی کی نشان دہی کر رہے تھے۔

جمال خان مندوخیل نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ تقریر کے ذریعے الزام لگانا غلط تھا تو درست طریقہ کیا تھا؟ چیف جسٹس نے کہا کیا سپریم جوڈیشل کونسل کو کیس آئینی طور پر ریمانڈ ہوسکتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کیس واپس نہیں بھیجا جا سکتا، شوکت عزیز صدیقی ریٹائر ہوچکے، بطور جج بحال نہیں ہوسکتے، سپریم جوڈیشل کونسل اب شوکت عزیز صدیقی کا معاملہ نہیں دیکھ سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش کالعدم ہوئی تو الزامات درست تصور ہوں گے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ فیض حمید پر تقریر میں کوئی الزام لگایا گیا نہ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے، جوڈیشل کونسل نے کہا شوکت عزیز صدیقی نے عدلیہ کو بے توقیر کیا۔ چیف جسٹس نے کہا عدلیہ کی بے توقیری کا معاملہ کہاں سے آ گیا؟

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جج کو پبلک میں جا کر تقریر نہیں کرنی چاہیے تھی، جج کو عوامی اور سیاسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ شوکت عزیز صدیقی پر ضابطہ اخلاق کی کس شق کی خلاف ورزی کا الزام لگا؟ شوکت عزیز صدیقی نے شہرت حاصل کرنے کے لیے تو تقریر نہیں کی ہوگی، درخواست گزار نے بہت مشکلات برداشت کی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرا کنسرن اس ادارے کی ساکھ ہے، آپ بطور سینئر وکیل کیا سچ جاننا نہیں چاہتے؟ قوم کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ الزامات درست تھے یا غلط؟ یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے، لوگ عدلیہ پہ اعتبار کرتے ہیں۔ اگر کل کو کوئی یہ کہہ دے کہ مجھے یہ جج پسند نہیں اور سارے جوڈیشل کونسل ممبران اتفاق کر جائیں تو اس کو ہٹا دیا جائے؟ ایک ہے اپنی رائے کو کسی دوسرے کی رائے سے بدل دینا دوسرا ہے معاملے کی تحقیقات کرنا۔ یہ متفقہ رائے ہے کہ اس معاملے کی انکوائری نہیں ہوئی۔ ایک قتل ہو جاتا ہے اس میں بھی گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جاتے ہیں جرح ہوتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر اس معاملے میں انکوائری نہیں ہوئی تو سپریم کورٹ سن سکتی ہے، جج کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سپریم کورٹ کیس سن سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قوم جاننا چاہتی ہے کہ اس معاملے پر وفاقی حکومت کی رائے کیا ہے؟ سپریم جوڈیشل کونسل بنا انکوائری اگر ایک جج کو برطرفی کی سفارش کرتی ہے تو جج اپنی ذات پر لگے ہوئے دھبے کو کیسے صاف کرے گا؟

چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس مقدمے میں کتنی سماعتیں ہو چکی ہیں؟ حامد خان نے جواب دیا کہ بے شمار سماعتیں ہوچکی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے عافیہ شہر بانو کیس میں اپیل دائر کی ہے اس معاملے کو کالعدم کریں پھر آپ اس کیس کو سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجواسکتے ہیں۔

(واضح رہے کی عافیہ شہر بانو نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کی تھی، جو نہیں سنی گئی پھر اس نے سپریم کورٹ میں درخواست دی، سپریم کورٹ نے جون 2023 میں درخواست مسترد کر دی تھی کہ ریٹائرڈ جج کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی)

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کے مقدمے میں سپریم جوڈیشل کونسل نے مقدمہ کسی درخواست کے بجائے خود کاروائی شروع کی تو کیا انکوائری ضروری تھی؟ حامد خان نے بتایا کہ انکوائری اور بھی ضروری تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ شوکت صدیقی کیخلاف شکایت کس نے کی یا رجسٹرار نے خود سب کچھ کونسل کو بھیجا، رجسٹرار کس حیثیت میں جج کے خلاف کونسل کو نوٹ لکھ سکتا ہے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ شوکت صدیقی کیس میں سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا، کیا جب کونسل ازخود کارروائی کرے تو بھی انکوائری کرنا ہوگی؟

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کونسل نے خود کیسے کارروائی کا آغاز کیا، ہمیں رجسٹرار آفس کا نوٹ دکھائیں؟ (اٹارنی جنرل کچھ مصروفیات کی بنا پر عدالت سے چلے گئے کہا مجھے کچھ اور مقدمات دیکھنے ہیں) حامد خان نے کہا کہ جب شوکت صدیقی کے الزامات آئے انور کاسی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری تھی، شوکت صدیقی کے الزامات مسترد کرنے پر انور کاسی کو بری کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا حامد خان صاحب ہم سپریم جوڈیشل کونسل پر ایسے انگلیاں نہیں اٹھائیں گے،  کل 50 ججوں کیخلاف شکایت دائر کی جائے تو کیا یہ ادارہ ہی ختم ہو جائے گا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ بہت سنگین الزامات لگا رہے ہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جب ایک جج کی تقریر واضح ہے اور موجود ہے کیا پھر بھی انکوائری کی ضرورت ہے، شوکت عزیز صدیقی پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں؟ حامد خان نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کے کیس میں انکوائری لازم ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا شوکت صدیقی کیخلاف شکایت کس نے کی یا رجسٹرار نے خود سب کچھ کونسل کو بھیجا، رجسٹرار کس حیثیت میں جج کے خلاف کونسل کو نوٹ لکھ سکتا ہے؟ سیکریٹری کونسل کیسے ہوسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا ہوسکتا ہے کونسل نے ہی سیکریٹری کونسل کو کہا ہو، کونسل میں کتنی مرتبہ کیس لگا؟ حامد خان نے بتایا کہ صرف ایک مرتبہ کیس لگا جس میں شوکت صدیقی کو بلایا گیا تھا۔

جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ ریکارڈ دیکھیں تو یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کہ شوکت صدیقی کو موقع نہیں دیا گیا، 2 ماہ سے زیادہ کارروائی چلی، ان کے جوابات کا جائزہ بھی لیا گیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ پر الزام یہ نہیں تھا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں یا غلط، آپ پر الزام تھا کہ پبلک میں عدلیہ کو بدنام کیا، آپ نے اس تقریر سے انکار تو نہیں کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل پر واچ ڈاگ نہیں ہے، ہمیں آئین سازوں کے بنائے بیلنس کو برقرار رکھنا ہوگا، سپریم جوڈیشل کونسل ایک مضبوط آئینی باڈی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے تھے انکوائری کمیشن بنا دیں لیکن جوڈیشل کونسل کی موجودگی میں کمیشن بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ آرٹیکل 210 پڑھیں تو سپریم جوڈیشل کے پاس وسیع آئینی اختیارات ہیں، ہر آئینی باڈی یا ادارے کے پاس آزادانہ فیصلے کا حق ہے، سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی آئینی ادارے کی نگران نہیں ہے، سپریم کورٹ صرف آئینی خلاف ورزی کی صورت میں حرکت میں آ سکتی ہے، موجودہ کیس میں بہت محتاط چلنا ہوگا کہ کہیں اداروں کے درمیان قائم آئینی توازن خراب نا ہو، شوکت صدیقی کیس کا فیصلہ بھی 50 سالوں تک عدالتی نظیر کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ کیخلاف ریفرنس کی بنیاد تقریر ہے، آپ اس تقریر کے متن سے انکار نہیں کر رہے۔ سندھ بار کے وکیل صلاح الدین ویڈیو لنک پر پیش ہوئے اور کہا کہ کونسل کا مخصوص کردار ہے، اب جج ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تو کیا اس جج کو خمیازہ بھگتنا پڑے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا بغیر انکوائری ہم پوری کارروائی کیسے ختم کرسکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کی آئینی درخواست مفاد عامہ کے تحت دائر ہوئی، آپ اگر ایک جج کی بات کر رہے ہیں تو اس حساب سے آپ کی درخواست ہی قابل سماعت نہیں ہے۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ سپریم کورٹ کمشین تشکیل دیکر انکوائری کرائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار کیسے حاصل ہے کہ کمشین تشکیل دیا جائے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ سپریم کورٹ مفاد عامہ کے تحت کمشین بنا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیشن انکوائری ایکٹ کے تحت تو صرف وفاقی حکومت ہی تشکیل دے سکتا ہے۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ انکوائری کا معاملہ الگ ہے لیکن ہمیں اس معاملے پر قانونی معاونت نہیں ملی آیا جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا عمل مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا تھا کہ نہیں۔

حامد خان نے بتایا کہ سپریم کورٹ اصول طے کر چکی ہے کہ جج کو مکمل انکوائری کا موقع ملنا چاہئے، چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے شفاف ٹرائل کی بات کرتا ہے، کسی نائب قاصد کو بھی ہٹانے کے لیے پورا طریقہ کار طے شدہ ہے، ہم بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز نہیں کرسکتے، انکوائری کو نظر انداز کرکے کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی، سپریم کورٹ کو ایک لائن کھینچنی ہے، سپریم کورٹ اور سپریم جوڈیشل کونسل کے درمیان فرق کی لکیر کھینچی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اداروں کی تضحیک کا سوال ہے، سوال یہ ہے کہ جج نے جو کہا سچ ہے یا سچ نہیں ہے، ملاقاتوں کی نفی کی گئی ہے، ہم ہوا میں طے نہیں کر سکتے کہ کون سچ کہہ رہا ہے کون سچ نہیں کہہ رہا، ایک جج کو ہٹانا اتنا ہی آسان ہے تو یہ عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرے کا سبب ہے۔ عوام کو سچ جاننے کا مکمل حق ہے، یہ عوامی معاملہ ہے، کیا ہم کونسل کو بھیج سکتے ہیں یا نہیں سوال یہ بھی اہم ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تحریری جوابات جمع کرانے کے لیے کتنا وقت درکار ہے، شہرت کے لیے تقریر کی گئی یا نہیں یہ الزام بھی ہے۔ عدالت نے آج کی سماعت کے حکم نامے میں کہا کہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور برگیڈیئر عرفان رامے کو نوٹس دیا گیا تھا، خواجہ حارث پیش ہوئے اور جوابات جمع کرائے، جوابات میں الزامات کا جواب دیا گیا، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی اپنا جواب جمع کرایا۔

حکمنامے میں اٹھائے گئے سوالات

آیا انکوائری کے بغیر جج کی برطرفی عمل میں آسکتی ہے ؟

شوکت عزیز صدیقی جون 2021 میں ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال کو پہنچ گئے، کیا اب معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایا جا سکتا ہے؟

کیا جج کا تقریر کا مس کنڈکٹ تسلیم کرنے پر انکوائری کی ضرورت تھی؟

ان سوالات کے جوابات تین ہفتوں میں جمع کروائے جا سکتے ہیں۔ فیصلہ محفوظ ہے اگر ضرورت ہوئی تو دوبارہ سماعت بھی ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے مقدمے کے فریقین کو نوٹس جاری کر رکھا ہے۔گزشتہ روز جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا تھا۔ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کے شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی نے بھی سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا ہے۔ سابق چیف جسٹس انور کانسی نے بھی شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ برگیڈیئر ریٹائرڈ عرفان رامے نے بھی سپریم کورٹ میں جمع کرائے جواب میں شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی تردید کی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp