راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی سماعت ہوئی ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کمرہ عدالت میں پیش ہوئے۔
سائفر کیس میں استغاثہ کے مزید 6 گواہوں کے بیانات قلمبند کر لیے گئے۔ استغاثہ کے گواہ سیکریٹری داخلہ اکبر درانی، سابق سفیر اسد مجید، فرخ عباس، فیصل ترمزی کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔
مزید پڑھیں
استغاثہ کے گواہ حسیب گوہر اور کیس کے تفتیشی افسر کا بیان بھی ریکارڈ کر لیا گیا۔
یاد رہے کہ اب تک کیس میں مجموعی طور پر تمام 25 گواہوں کے بیانات قلمبند کر لیے گئے جبکہ 3 گواہان کو کیس سے واپس لے لیا گیا۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا کل سے گواہوں پر جرح کا آغاز کریں گے۔
اسد مجید نے اپنے بیان میں کیا کہا؟
اِدھر امریکا میں پاکستان کے سفابق سفیر اسد مجید کا سائفر کیس میں قلمبند کرایا گیا بیان سامنے آ گیا ہے۔
اسد مجید نے موقف اختیار کیا ہے کہ جنوری 2019 سے مارچ 2022 تک امریکا میں پاکستان کا سفیر تھا، 7 مارچ 2022 کو امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور مسٹر ڈونلڈ لو کو ورکنگ لنچ پرمدعو کیا تھا۔
اسد مجید نے کہاکہ یہ ایک پہلے سے طے شدہ ملاقات تھی جس کی میزبانی واشنگٹن میں پاکستان ہاؤس میں کی گئی، ملاقات میں ہونے والی بات چیت سائفر کے ذریعے سیکریٹری خارجہ کو بھجوائی گئی۔
سابق سفیر نے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن اور ڈیفنس اتاشی بھی موجود تھے، ملاقات میں دونوں سائیڈز کو معلوم تھا کہ میٹنگ کے منٹس لیے جا رہے ہیں۔
سائفر میں خطرہ یا سازش کے الفاظ کا کوئی حوالہ نہیں تھا، اسد مجید
انہوں نے کہاکہ سائفر ٹیلی گرام میں ملاقات میں ہونے والی گفتگو کو اسلام آباد رپورٹ کیا گیا۔ خفیہ سائفر ٹیلی گرام میں ’خطرہ‘ یا ’سازش‘ کے الفاظ کا کوئی حوالہ نہیں تھا۔
اسد مجید نے بیان میں مزید کہا ہے کہ مجھے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں بھی بلایا گیا۔ جس میں ڈی مارش ایشو کرنے کا فیصلہ ہوا۔
انہوں نے کہاکہ میں نے ڈی مارش ایشو کرنے کی تجویز دی تھی، سائفر معاملہ پاکستان امریکا تعلقات کے لیے دھچکا ثابت ہوا۔