آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد شہر میں رہائش پذیر ایک 19 سالہ لڑکی اپنے معاشرے کے اصولوں کو دوبارہ سے لکھ رہی ہے۔ جویریہ سے ملیں جو ایک نوجوان کشمیری لڑکی ہے اور اس کا جذبہ آس پاس پہاڑوں کی طرح ہی ناقابل تسخیر ہے۔
ایک ایسے خطے میں جہاں روایات اکثر صنفی کردار کا تعین کرتی ہیں، جویریہ کا سفر کسی انقلاب سے کم نہیں ہے۔ وہ سماجی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے مظفرآباد میں بہت سی نوجوان لڑکیوں کے لیے بااختیار ہونے کی علامت بن گئی ہے۔ جویریہ کی کہانی صرف موٹرسائیکل چلانے کی نہیں بلکہ پرانے تصورات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بارے میں بھی ہے۔
جویریہ محلے کے بچوں کے ساتھ کرکٹ اور گلی ڈنڈا کھیلتی ہیں
جویریہ محلے کے بچوں کے ساتھ کرکٹ اور گلی ڈنڈا کھیلتی ہیں، موٹر سائیکل چلاتی ہیں اور روزمرہ کاموں میں گھر والوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ وہ وہی لباس پہنتی ہیں جو لڑکے پہنتے ہیں،ان کے بالوں کا اسٹائل بھی لڑکوں جیسا ہے اور عادات بھی لڑکوں جیسی ہیں۔
بھائی کو دیکھ کر موٹرسائیکل چلانے کا شوق پیدا ہوا، جویریہ
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جویریہ نے موٹرسائیکل سیکھنے کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا ’میرا بھائی موٹرسائیکل چلاتا تھا تو اسے دیکھ کر مجھ میں شوق پیدا ہوا کہ میں بھی موٹر سائیکل چلاؤں۔ میں اپنے بھائی کو دیکھتی تھی کہ وہ کیسے موٹر سائیکل چلاتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ایک دن بھائی گیراج میں موٹرسائیکل کھڑا کر کے گیا تو میں نے موٹر سائیکل وہاں سے نکالی۔ اس وقت مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ موٹر سائیکل کیسے چلاتے ہیں تو موٹرسائیکل گرگئی لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور کئی بار حادثوں کے بعد بالآخر میں نے موٹرسائیکل سیکھ لی۔
ارد گرد کی خواتین رکشے پر جانے کے بجائے میرے ساتھ موٹرسائیکل پر سفر کرتی ہیں
جویریہ نے کہا کہ اس مہنگائی کے دور میں ہمارے ارد گرد رہنے والی خواتین کو اگر کہیں جانا ہو اور وہ رکشے کا کرایہ ادا نہیں کرسکتیں تو وہ میری موٹرسائیکل میں پیٹرول ڈال کر میرے ساتھ چلی جاتی ہیں۔
محلے کی ایک خاتون نے کہا ’اگر ہمیں کہیں جانا ہو تو ہم جویریہ کو فون کرتے ہیں اور پھر یہ ہمیں لے جاتی ہے۔ یہ ہمارے بچوں اور بچیوں کو اسکول بھی لے جاتی ہے‘۔
جویریہ ایک پرائیویٹ کمپنی ٹور اینڈ ٹریول ایجنسی میں کام کرتی ہیں
جویریہ ایک پرائیویٹ کمپنی ٹور اینڈ ٹریول ایجنسی میں کام کرتی ہیں اور وہ نہ صرف دفتر موٹرسائیکل پر جاتی ہیں بلکہ بازار سے گھر کے لیے راشن بھی لاتی ہیں۔
’ابتدا میں بھائی اور دیگر لوگوں کی طرف سے بھی جویریہ کے موٹرسائیکل چلانے پر اعتراض کیا گیا مگر والدین نے حوصلہ افزائی کی تو پھر بھائی نے بھی تعاون کیا اور اپنی موٹرسائیکل ان کو دے دی۔ اب جویریہ کے پاس اپنی موٹرسائیکل ہے‘۔
جویریہ کا کہنا ہے کہ وہ بائیکیا پر کسی غیر کے ساتھ بیٹھ کر کہیں نہیں جا سکتیں اور نہ ہی وہ رکشہ میں خود کو محفوظ سمجھتی ہیں۔ اس صورت حال میں موٹر سائیکل ان کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوا ہے۔
’جویریہ اب موٹرسائیکل کی چھوٹی موٹی خرابی بھی خود ٹھیک کر لیتی ہیں‘
انہوں نے کہاکہ ابتدا میں جب موٹر سائیکل پر جاتی تھی تو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ’کبھی ٹائر پنکچر ہو جاتا تو کبھی چین اتر جاتا۔ اب آہستہ آہستہ یہ کام خود سیکھ لیے ہیں اور مکینک کے پاس بھی نہیں جانا پڑتا جب تک کہ موٹر سائیکل میں کوئی بڑی خرابی نہ ہو‘۔
جویریہ کے والدین ہر کامیابی پر اس کے ساتھ ہیں اور اسے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ جویریہ کے والدین عقلمند اور ترقی پسند ہیں، جنہوں نے اس کی صلاحیتوں کو بچپن میں دیکھا اور اسے معاشرتی روایات کی پابندیوں سے آزاد ہونے کے لیے حوصلہ عطا کیا۔
جویریہ کو بیٹی نہیں بیٹا سمجھتا ہوں، والد
جویریہ کے والد اورنگزیب کیانی نے کہاکہ جویریہ میری بیٹی ہے لیکن میں اس کو بیٹوں سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں اور بیٹا ہی سمجھتا ہوں۔ ’ہر والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں پر پورا اعتماد کیا کریں۔ جب میں گھر تعمیر کر رہا تھا اس وقت اس کی عمر 15 سال تھی۔ یہ مال بھی تیار کرتی تھی اور سیمنٹ کا بیگ بھی اٹھا کر لاتی تھی جس کا وزن 50 کلو ہوتا تھا۔ اس نے میرے ساتھ مزدور کی طرح کام کیا۔
انہوں نے کہاکہ میری بیٹی کو کرکٹ کا شوق تھا اور یہ کرکٹ کھیلتی تھی، موٹر سائیکل بچپن میں ہی چلانا سیکھ لیا تھا اور اب گھر کا راشن لانا ہو تو جویریہ ہی لاتی ہے۔
مجھے اپنی بیٹی پر فخر ہے، والدہ
جویریہ کی والدہ فوقیہ کا کہنا ہے کہ بہت ساری بچیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کھیلوں میں حصہ لیں اور آگے بڑھیں۔ میری جویریہ نے نہ صرف حصہ لیا بلکہ انعامات بھی جیتے ہیں۔ مجھے اپنی بیٹی پر فخر ہے۔