آپ وراثت میں ملنے والے 27 ارب ڈالرز کا کیا کریں گے؟

جمعہ 26 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آئیے اس رقم کو تناظر فراہم کریں، ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان سے زمبابوے تک بیشتر ممالک میں کروڑوں لوگ سالانہ 4,465 ڈالر سے کم کماتے ہیں، اب ایک شخص جو اتنا کماتا ہو اسے 27 ارب ڈالر خرچ کرنے کے لیے کم از کم 6 ہزار سال درکار ہوں گے۔

آسٹریلیا، فرانس، جرمنی، جنوبی کوریا اور امریکہ سمیت امیر ممالک میں بھی یہ ایک حیران کن رقم ہے، جہاں اوسط سالانہ آمدنی تقریباً 13,846 ڈالر بنتی ہے، چنانچہ جب مارلین اینجل ہورن نے رواں ماہ کے آغاز میں اعلان کیا کہ وہ اپنی 27 ملین ڈالر وراثت خیرات کردے گی، تو یہ بحث شروع ہوگئی کہ امیر بچوں کو زندگی میں ابتدا سےکیوں آغاز کرنا چاہیے۔

31 سالہ آسٹرین شہری مارلین اینگل ہورن نے اپنی 2022 میں فوت ہونیوالی دادی کی جانب سے وراثت میں ایک خطیر رقم ملی تھی، ان کی خوش قسمتی کی جڑیں اس کے خاندان کی طرف سے 1996-97 میں بوہرنگر مینہیم کمپنی کی فروخت سے جڑی ہیں۔

وہ سمجھتی ہیں کہ وہ فقط ایک امیر گھرانے میں پیدا ہونے کے باعث امیر ہیں۔ ’میرے خیال میں، 21ویں صدی کے جمہوری معاشرے میں، پیدائش ایک ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو اس بات کا تعین کرتی ہو کہ آپ ایک بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں یا نہیں۔‘

21ویں صدی کے جمہوری معاشرے میں، پیدائش ایک ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو اس بات کا تعین کرتی ہو کہ آپ ایک بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں یا نہیں، مارلین اینگل ہورن (فائل فوٹو)

عظیم تقسیم

دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے ساتھ، حکومتوں پر اس دولت پر ٹیکس عائد کرنے کا دباؤ ہے جو امیر والدین اپنے بچوں کو دیتے ہیں، دولت کی عدم مساوات کے بارے میں رویہ مختلف ہوتا ہے، لیکن جو چیز وراثتی ٹیکس کو مشکل بناتی ہے وہ یہ ہے کہ دولت کو خاندان کی جائیداد کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

ویانا انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامک اسٹڈیز کے ریسرچ ایسوسی ایٹ اسٹیفن جیسٹل کا کہنا ہے کہ حکومت کو عام طور پر اس میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے کہ فنڈز کے ساتھ کس طرح نمٹا جاتا ہے، نسل در نسل نقطہ نظر سے، دولت وقت گزرنے کے ساتھ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔

’۔۔۔چونکہ خاندان کے ایک فرد نے آخر کار وہ دولت کمائی یا جمع کر لی جو اس کے بعد اگلی نسلوں کو وراثت میں ملتی ہے، اس دولت کو خاندان کی کامیابی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یہی وراثت پر ٹیکس کی غیر مقبولیت کی بنیادی وجہ معلوم ہوتی ہے۔‘

تاہم، ایک زیادہ انفرادی نقطہ نظر سے، اسٹیفن جیسٹل کہتے ہیں کہ یہ غیر منصفانہ لگتا ہے کہ ایک امیر بچہ کوئی کوشش کیے بغیر وراثت میں بڑی رقم حاصل کرلے۔

’ان افراد کی خوش قسمتی تھی کہ وہ ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے، معاشرہ بعض خاندانوں کو دولت جمع کرنے کے قابل بناتا ہے، اس لیے دولت کا ایک خاص حصہ معاشرے کو واپس کر دینا چاہیے۔‘

براہ راست باس کی کرسی پر براجمان ہونیوالے

آسٹریا ان چند یورپی ممالک میں سے ایک ہے جہاں وراثت پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا، چونکہ حکومت مارلین اینگل ہورن کی دولت پر کوئی ٹیکس نہیں نافذ کررہی ہے، انہوں نے گڈ کونسل کے نام سے ایک شہری گروپ تشکیل دیا ہے، جو بے ترتیب طور پر آسٹریا میں 50 لوگوں کا انتخاب کرے گا تاکہ وہ مارلین کی 27 ارب ڈالرز کی وراثت کو دوبارہ تقسیم کرنے میں معاون ہوسکیں۔

مارلین اینگل ہورن نے گڈ کونسل کے نام سے ایک شہری گروپ تشکیل دیا ہے، جو آسٹریا میں 50 لوگوں کا انتخاب کرے گا تاکہ وہ ان کی 27 ارب ڈالرز کی وراثت کو دوبارہ تقسیم میں معاونت کرسکیں۔ (فائل فوٹو)

ایک طویل عرصے سے دولت پر ٹیکس اور انتہائی امیروں پر زیادہ ٹیکسوں کی حمایت کرنے والی، مارلین اینگل ہورن کہتی ہیں کہ وہ عدم مساوات پر بات  سے بڑھ کر عمل کی قائل ہیں اور سمجھتی ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان لوگوں کے لیے جو ان کی طرح معاشرے کو واپس دینے کے متحمل ہو سکتے ہیں، ان پر ٹیکس لگایا جائے۔

بڑی بھلائی کے لیے

معروف برطانوی ادیب کے ناول ’دی ونڈرفل اسٹوری آف ہینری شوگر‘ میں ایک امیر آدمی تاش کے پتوں کو دونوں جانب سے دیکھنے کی صلاحیت سیکھتا کر اسے کیسینو میں اچھی رقم جیتنے کے لیے استعمال کرتا ہے، مرکزی کردار ہنری، جو پہلے سے ہی دولت مند تھا آخر کار اسے احساس ہوتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ رقم کا ہونا اتنی خوشی نہیں جگاتا جتنا اس نے سوچا تھا، جس کی وجہ سے وہ اپنے پیسے بالکونی سے باہر پھینک دیتا ہے۔

مارلین اینگل ہورن، جو کیمیکل کمپنی بی اے ایس ایف کے بانی فریڈرک اینگل ہورن کی اولادوں میں سے ہیں، دولت کی تقسیم پر عوامی بحث کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہیں۔ ’محض رقم عطیہ کردینا یا ایک نئی این جی او کی تشکیل، عدم مساوات کی وجوہات کو دور کرنے میں معاون و مددگار نہیں ہوسکے گا۔‘

اس سال مارچ سے جون تک، 50 نوجوان جن میں سے ہر ایک کو ان کے وقت اور محنت کا معاوضہ مارلین اینگل ہورن کے ذریعے دیا جائے گا، سالزبرگ میں ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ کئی ویک اینڈ پر جمع ہوں گے تاکہ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں کہ مارلین اینگل ہورن کا پیسہ عوام کو کس طرح بہترین فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

مارلین اینگل ہورن کے مطابق ان کے پاس ہمیشہ ایک بہت اچھا معاشی اور دیرپا حفاظتی حصار رہے گا، جوان کے خیال میں ایک معاشرے کے طور پرہرایک کو فراہم کرنا چاہیے اور یہ پیدائشی استحقاق کا معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔ (فائل فوٹو)

دولت کی عدم مساوات کا مسئلہ خاص طور پر آسٹریا میں دباؤ ڈال رہا ہے جہاں 5 فیصد بالادست امیر ترین افراد ملک کی مجموعی دولت کے تقریباً 54 فیصد کے مالک ہیں، پچھلے سال، آسٹریا کے اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹس نے وراثتی ٹیکس کے نفاذ کے لیے ایک نئی کال کی کیونکہ آسٹریا کے باشندوں کو زندگی گزارنے کے اخراجات کے بحران کا سامنا ہے۔ تاہم، اس تجویز کو حکمران قدامت پسند پیپلز پارٹی نے مسترد کر دیا تھا۔

مارلین اینگل ہورن کا اپنی وراثت کی بابت یہ حیران فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب آکسفیم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے پانچ امیر ترین افراد نے 2020 کے بعد سے اپنی وسیع دولت کو دوگنا کرچکے ہیں اور دنیا کو ایک دہائی کے اندر اپنا پہلا کھرب پتی مل سکتا ہے۔

جرمن ادب اور زبان کا مطالعہ کرنے والی اینگل ہورن ایڈیٹنگ کے شعبے میں جانا چاہتے ہیں مگر اپنی دولت کا اتنا بڑا حصہ بانٹ دینے کے بعد مارلین اینگل ہورن کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

’۔۔۔لیکن یہ ٹھیک رہے گا، میں ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئی ہوں، چاہے میں کچھ بھی کروں، میرے پاس ہمیشہ ایک بہت اچھا معاشی اور دیرپا حفاظتی حصار رہے گا، جو میرے خیال میں ہمیں ایک معاشرے کے طور پر ہر ایک کو فراہم کرنا چاہیے اور یہ پیدائشی استحقاق کا معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp