شاہین گل ہیں تو لڑکی لیکن انہوں نے شوق لڑکوں والے پالے ہوئے ہیں۔ خوبصورت ساز بجانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک دلکش بائیک بھی رکھی ہوئی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کی ٹام بوائے بننے کی وجہ یہ ہے کہ لڑکیوں والے حلیے میں انہیں الجھن ہوتی ہے اور وہ لڑکوں والے گیٹ اپ میں زیادہ آرام دہ محسوس کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حلیے میں رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ وہ بائیک پر کہیں بھی جا کر اپنا کام نمٹا کر واپس آجاتی ہیں وگرنہ حلیہ لڑکیوں کا ہو تو مرد گھورتے رہتے ہیں جس سے الجھن محسوس ہوتی ہے۔
شاہین گل اپنے ساز ’چنگ‘ کے حوالے سے کہتی ہیں کہ یہ 5 ہزار سال پرانا ہے اور اس کے موہن جو دڑو سے بھی آثار ملے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف پاکستان یا ہندوستان میں نہیں بلکہ ہر ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ ساز روح کے تار چھیڑ دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جہاں قدرتی ماحول ہوتا ہے یہ ساز وہاں بجایا جاتا ہے۔
چرواہوں کا ساز
شاہین گل کہتی ہیں کہ اسے چرواہوں کا ساز بھی کہا جاتا ہے وہ اس لیے کہ چرواہا، جانوار اور نیچر کے ساتھ یہ ساز بہت لگا کھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چرواہا جانوروں کو چرنے چھوڑ کر بیٹھ جاتا تھا اور پھر یہ ساز بجاتا تھا جس کی مدھر آواز پر سکون وادیوں میں دور تک کانوں تک پہنچتی تھی بالکل ایسے ہی جیسے بانسری کی آواز۔
’ساز بجاؤ پھر سر قلم کرنا تاکہ پتا نہ چلے‘
انہوں نے کہا کہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام میں ایک داستان چرواہے بیجل کی بھی ہے جس نے اس ساز کو بجا کر ایک سلطان کا سر قلم کیا تھا، جب بیجل نے یہ ساز سلطان کے سامنے بجایا تو سلطان خوش ہوکر کہا کہ بتاؤ تمہیں کیا چاہیے، بیجل نے کہا مجھے آپ کا سر چاہیے جس پر سلطان نے کہا کہ تم یہ ساز بجاتے رہو جب میں مدہوش ہوجاؤں تو میرا سر قلم کردینا۔
روح کو ساز کے ساتھ ملانے والا چنگ
شاہین گل کہتی ہیں کہ اس ساز میں اتنی طاقت ہے کہ یہ آپ کو مدہوش کردے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی کو اگر سکون کا پل چاہیے تو وہ نیچر کے قریب جا کر اس ساز کو سنے اس سے اسے بیحد سکون حاصل ہوگا۔
’اسے سیکھنے میں 15 برس لگے‘
شاہین گل کے مطابق پہلی بار بچپن میں انہوں نے یہ ساز ریڈیو پاکستان پر سنا تھا جس کے بعد ان پر اسے بجابے کی دھن سوار ہوگئی۔ ان کا کہنا ہے کہ 15 سال کی مسلسل محنت کے بعد انہوں نے یہ ساز بجانا سیکھا۔