خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر پیر بابا کے علاقے میں سنت سنگھ اپنے علاقے میں ’ منی بینک‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ 1950 سے اب تک لوگوں کی نقد رقوم اور زیورات اپنے ساتھ امانت کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھ رہے ہیں۔
اس دور جدید میں بینکوں کی سہولت کے باوجود ضلع بونیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نقد رقم اور قیمتی اشیا سنت سنگھ کے پاس امانت کے طور پر رکھواتے ہیں اور سنت سنگھ کسی نفع نقصان کے بغیر لوگوں کی امانتیں بروقت واپس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ضلع بونیر کے باسی سال 2024 میں بھی بینکوں میں پیسے رکھنے کے بجائے سنت سنگھ کو ترجیح دیتے ہیں۔
سنت سنگھ کے والد کندن لال 1950 میں ضلع بونیر کے علاقے پیر بابا میں کپڑے کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ اس وقت سے اس خاندان پر لوگوں کا اعتماد اور بھروسا قائم ہے۔
والد کے انتقال کے بعد سنت سنگھ نے کاروبار سمیت ’ منی بینک ‘کا بیڑا بھی اٹھا لیا ہے۔ اب سنت سنگھ کی عمر 56 سال ہے اور انہوں نے 22 سال کی عمر میں یہ کاروبار سنبھالا تھا۔اس وقت سے لے کر اب تک احسن طریقے سے کاروبار اور منی بینک چلا رہے ہیں۔
بونیر میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے کم و بیش 12 سو سے زیادہ افراد اور 500 سے زیادہ خاندان آباد ہیں جن کی اکثریت اپنا کاروبار چلاتی ہے۔
بونیر میں سکھ کمیونٹی کے 5 گردوارے اور 5 شمشان گھاٹ ہیں جہاں پر وہ بلا خوف و خطر اپنی عبادات اور رسومات ادا کرتے ہیں۔
سکھ برادری کی 50 فیصد آبادی بونیر کے اولین اور روحانی گاؤں ’پیر بابا‘ میں رہائش پذیر ہے جبکہ باقی آبادی دیوانہ بابا، غورغوشتو، جنگئی اور چنگلئی میں زندگی بسر کر رہی ہے۔
سنت سنگھ کے مطابق وہ 122 سال سے ضلع بونیر کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں۔ ان کے آبا و اجداد یہاں کاروبار کی غرض سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ اس وقت ’پیر بابا‘ بازار کاروبار کے لحاظ سے سوات کے مینگورہ شہر کے مقابلے پر تھا اور تب سے لے کر اب تک سکھ برادری اور مسلمان بھائی آپس میں بہتر تعلقات کی فضا میں رہ رہے ہیں اور ان کا آپس میں اچھا میل جول ہے۔
سنت سنگھ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بونیر میں سکھ کمیونٹی سینکڑوں سال سے آباد ہے اور یہ لوگ میرے بھائیوں اور خاندان کے افراد کی طرح ہیں۔اس مٹی اور قوم کی خدمت مرتے دم تک کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ ’ یہاں میرا کاروبار چھوٹا ہے لیکن لوگوں کا اعتماد بہت بڑا ہے‘۔ سنت سنگھ نے بتایا کہ میرے والد کندن لال نے ’منی بینک‘ کی بنیاد رکھی تھی لیکن پھر ان کے انتقال کے بعد میں نے اپنی ذمہ داری بروقت قبول کی اور یہ سلسلہ جاری رکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس لوگ 5 روپے سے لے کر 10 لاکھ روپے تک رکھتے ہیں۔ اس دور جدید میں مختلف مقامات پر بہت سارے بینک موجود ہیں لیکن پھر بھی لوگ ہمارے پاس پیسے رکھوانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
سنت سنگھ نے وی نیوز کو مزید بتایا کہ بونیر کے زیادہ تر افراد ملائشیا اور سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ وہ سب ہمارے ہاتھ پیسے بھیجتے ہیں اور پھر ان کے خاندان والے ضرورت کے وقت ان میں سے کچھ پیسے ہم سے وصول کر لیتے ہیں۔
سنت سنگھ نے بتایا کہ اب میری عمر 54 سال ہو چکی ہے اور میرا شمار اپنی برادری کے مشیران میں ہوتا ہے۔ اس لیے اپنے کاروبار اور ’منی بینک‘ کے ساتھ ساتھ گردوارے کی خدمت بھی کرتا ہوں۔
سنت سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ ’منی بینک‘ کا قیام اس لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ اس وقت بونیر میں بینکنگ کا کوئی نظام موجود نہیں تھا‘۔
بونیر کے مشہور تجارتی مرکز ’پیر بابا‘ میں 7 سال سے کاروبار کرنے والے نصیب بونیری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہاں زیادہ تر کاروبار سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ چلا رہے ہیں۔مختلف علاقوں سے لوگ یہاں آ کر کپڑے، مٹھائیاں اور روایتی چیزیں لے کر جاتے ہیں۔
بونیری نے مزید بتایا کہ بینکوں میں پیسے رکھنا بھی غلط بات نہیں لیکن کبھی سال کے آخر میں بینکنگ سسٹم بہت خراب ہوتا ہے تو یہی وجہ ہے میں خود بھی اپنے پیسے سنت سنگھ کے پاس رکھتا ہوں اور ان کے پاس زیادہ تر امانتیں اور پیسے مسلمان برادری والے لوگ ہی رکھواتے ہیں۔
بونیر کے گاؤں ڈگر سے تعلق رکھنے والے شاہ ولی خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بونیر میں رہنے والے سکھ کمیونٹی کے تمام تر افراد مقامی ہیں۔ ان کی پیدائش ہی یہاں ہوئی ہے۔
شاہ ولی نے مزید بتایا کہ ’ منی بینک ‘ میں ہم سب پیسے رکھوا رہے ہیں، اس کی خاصیت یہ ہے کہ لوگ ان کے پاس اس لیے امانت رکھواتے ہیں کہ جس وقت بھی چاہیں واپس لے سکتے ہیں۔ان کی طرف سے انکار نہیں ہوتا۔
بس یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان پر مکمل اعتماد ہے اور ان کے ساتھ باہمی ہم آہنگی اور بھائی چارہ بھی بہت زیادہ ہے‘۔
بونیر کے گاؤں پیر بابا سے تعلق رکھنے والی 40 سالہ خاتون کلثوم بی بی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے شوہر سعودی عرب میں مقیم ہیں اکثر اوقات میں وہ اپنے بھائی کے ہاتھوں مجھے پیسے بھیجتے تھے لیکن وہ مجھے کم رقم دیتے تھے اور اس بات پر شوہر سے لڑائی بھی ہوتی تھی اب سنت سنگھ کے ہاتھوں مجھے مکمل پیسے وصول ہوتے ہیں۔
کلثوم بی بی نے مزید بتایا کہ اب تک سنت سنگھ کے ہاتھوں مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا اور وہ یہ کام عبادت کے طور پر کرتے ہیں۔
وہ صرف پیسے نہیں بلکہ قیمتی چیزیں بھی اپنے پاس سنبھال کر رکھتے ہیں اور میں بھی لوگوں کو مشورہ دیتی ہوں کہ اپنے پیسے بینک کے بجائے سنت سنگھ کے پاس رکھیں۔
خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر میں مسلمان اور سکھ برادری کا تعلق مذہبی آزادی اور میانہ روی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس بات کا عکاس ہے کہ اقلیتی برادری بھائی چارے اور پرامن طریقے سے اپنی مذہبی رسومات بھی ادا کررہی ہے۔