ایف آئی اے طلبی کیس: سپریم کورٹ نے صحافیوں کو گرفتار کرنے سے روک دیا

پیر 29 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے صحافیوں کو ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے صحافیوں کے خلاف جاری کیے نوٹسز پر ایف آئی اے کو کارروائی سے روک دے دیا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کہ گالم گلوچ الگ بات ہے، تنقید کی بنا پر صحافیوں کو جاری نوٹسز پر ایف آئی اے کارروائی نہ کرے۔

سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، صدر پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ عقیل افضل سمیت نوٹسز جاری کیے گئے صحافی بھی عدالت میں موجود تھے۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کتنے کیسز ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 4 درخواستیں ہیں جن میں عبدالقیوم صدیقی اور اسد طور درخواست گزار ہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی کے پاکستان بار کے نمائندے موجود ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی اب ختم ہو چکی ہے۔ وکیل حیدر وحید نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت کو آزادی اظہار رائے کو ریگولیٹ کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست بعد میں دیکھیں گے، سب سے پہلے تو عبدالقیوم صدیقی بتائیں کہ کیس خود چلانا ہے یا پریس ایسوسی ایشن کے صدر دلائل دیں گے؟

عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ میں کچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ قدرت کا نظام دیکھیں کہ ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر 2 میں لیا لیکن معاملہ 5 رکنی بینچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لیے چلا گیا، 5 رکنی بینچ نے طے کیا کہ 184 تین کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے، صحافیوں کی ہی نہیں ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عبدالقیوم صدیقی آپ نے تو کہا تھا کہ آپ اس کیس کو چلانا نہیں چاہتے۔ اس پر عبدالقیوم صدیقی نے جواب دیا کہ جب معاملہ جسٹس اعجازالاحسن کے بینچ میں گیا تو کہا تھا کہ کیس نہیں چلانا چاہتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کیس نمٹانے کے بجائے 2021 سے سرد خانے میں رکھ دیا، بتائیں کہ تب کیا درخواست تھی آپ کی اور اب کیا ہے؟

‏ چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار کہہ رہا ہوں کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہرائیں گے، ہم تو غلطیاں تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں، یہاں تو بس موقع دیکھا جاتاہے، میں سب غلطیاں اپنے سر پر اُٹھاؤں، بالکل نہیں اُٹھاؤں گا، مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو مجھ پر اُنگلی اٹھائیں، اگر اُنگلی نہیں اٹھائی تو میری اصلاح نہیں ہو گی، تنقید کریں گے تو میری اصلاح ہوگی۔

‏ چیف جسٹس نے صحافی اسد طور سے استفسارکیا کہ اسد طور پر تشدد ہوا کیا ان کا پتا چلا کہ کون لوگ تھے؟ کیا آپ ان کی شکلیں پہچان سکتے ہیں؟ اسد طور نے جواب دیا کہ جی بالکل میں ان کی شکلیں پہچان سکتا ہوں، جو ایف آئی آر دی تھی اس میں کہا تھا کہ تشدد کرنے والوں نے اپنا تعارف کروایا تھا کہ ان کا تعلق آئی ایس آئی سے ہے۔

‏اسد طور نے درخواست واپس لینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے جھوٹا الزام لگایا ہے؟ اگر آپ پر دباؤ ہے تو ہم آپ کو پیچھے نہیں ہٹنے دیں گے۔ اسد طور نے کہا کہ میں ایف آئی آر کو اون کررہا ہوں لیکن اس درخواست میں مجھے غیر ضروری طور پر شامل کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسد طور صاحب! آپ کی مرضی نہیں ہے کہ ٹہلتے ہوئے آئیں اور کہیں کہ اپنی درخواست واپس لے رہا ہوں، ‏ہم یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا ہر صحافی جو لکھنا چاہے وہ آزادی کے ساتھ لکھ سکے، صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس سرد خانے میں چلا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہراتے رہیں گے، ہمیں سچ بولنا چاہیے، اگر ہم  سے غلطی ہوئی تو انگلی اٹھائیں،  یہاں مٹی پاؤ نظام چل رہا ہے، جب تک کسی کو قابل احتساب نہیں ٹھہرائیں گے ایسا ہوتا رہے گا۔

‏مطیع اللہ جان نے ارشد شریف قتل کیس کا معاملہ چیف جسٹس کے سامنے اٹھا دیا، چیف جسٹس سے درخواست کی کہ ‏ارشد شریف قتل کیس کو بھی دیکھ لیا جائے، سنگین نوعیت کا معاملہ زیر التوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے نشان دہی کی اچھی بات ہے لیکن وہ معاملہ اس لحاظ سے فرق ہے کہ جرم کسی اور ملک میں ہوا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کہ کہ تنقید کی بنا پر صحافیوں کو جاری نوٹس فوری واپس لیے جائیں، گالم گلوچ الگ بات ہے، ایف آئی اے تنقید کی بنا پر کارروائی نہ کرے۔ میں تنقید روکنے کے سخت خلاف ہوں، آزادی صحافت آئین میں ہے، میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‏اگر آپ یہ سمجھ رہے کہ تنقید روک کر میرا یا سپریم کورٹ کا فائدہ کر رہے ہیں تو آپ میرا نقصان کر رہے ہیں۔ جن صحافیوں کے خلاف تنقید پر نوٹس جاری ہوئے ہیں انہیں فوری واپس لیا جائے، اٹارنی جنرل صاحب اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ تنقید روک کر سپریم کورٹ یا میرا بھلا کر رہے ہیں تو یہ غلط ہے، ایسا کرکے آپ ہمارا نقصان کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صحافی اگر عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں تو کریں لیکن کسی کو تشدد پر اکسانے یا دیگر انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے، کسی بھی صحافی یا عام عوام کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے۔

‏ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ‏تھمب نیل پر جو کچھ ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب ہے۔ چیف جسٹس بولے خواتین پولیو ڈراپس پلانےجاتی ہیں انہیں مار دیا جاتا ہے، جڑانوالہ کرسچین کمیونٹی کی پوری بستی کو جلا دیاجاتا ہے۔ ملالہ یوسف زئی نے پاکستان کے لیے نوبل انعام جیتا اور وہ پاکستان نہیں آ سکتی، وہ صرف لڑکیوں کی تعلیم کی بات کر رہی تھی۔ کیونکہ ان کے پاس بندوق ہے اور ہمارے پاس صرف قلم ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تعلیم حاصل کرنیوالی خواتین پر تشدد اور ان کے سکولوں پر بم مارے جاتے ہیں۔ فتوٰی دیدیا جاتا ہے کہ خواتین الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتی، فتوٰی دینے والے کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟ کیوں مقدمہ درج نہیں کیا گیا، ان سے بدتر اور منفی سوچ کسی کی نہیں ہوسکتی، یہ نفرت پھیلاتے اور قبرستانوں تک کو نہیں چھوڑتے، یہ اب اژدھے بن چکے ہیں۔

‏ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ‏تھمب نیل پر جو کچھ ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب ہے۔ چیف جسٹس بولے خواتین پولیو ڈراپس پلانےجاتی ہیں انہیں مار دیا جاتا ہے، جڑانوالہ کرسچین کمیونٹی کی پوری بستی کو جلا دیاجاتا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تعلیم حاصل کرنیوالی خواتین پر تشدد اور ان کے سکولوں پر بم مارے جاتے ہیں۔ فتوٰی دیدیا جاتا ہے کہ خواتین الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتی، فتوٰی دینے والے کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟ کیوں مقدمہ درج نہیں کیا گیا، ان سے بدتر اور منفی سوچ کسی کی نہیں ہوسکتی، یہ نفرت پھیلاتے اور قبرستانوں تک کو نہیں چھوڑتے، یہ اب اژدھے بن چکے ہیں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے 2 ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل (منگل) تک ملتوی کر دی۔

آج کی سماعت کا حکم نامہ

سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوا دیا ہے، عدالت نے اسد طور، مطیع اللہ جان، عمران شفقت اور عامر میر پر تشدد کیخلاف کارروائی پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ بتایا جائے مقدمات میں اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے؟

سپریم کورٹ نے پوچھا کہ آگاہ کیا جائے کہ ملزمان کا تعلق وفاقی حکومت کے ماتحت حساس ادارے سے ہے، تفتیشی افسر یقینی بنائے کہ صحافیوں کو ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز سے آگاہ کیا جائے۔ بتایا گیا کہ نوٹسز عدالت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر جاری کیے گئے ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ تنقید کرنا ہر شہری اور صحافی کا حق ہے، معاملہ صرف تنقید تک ہے تو کسی کیخلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے، اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے تنقید پر کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ عدالت نے طلب کیے گئے صحافیوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا۔

عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو صحافیوں کیساتھ ملاقات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے ایف آئی اے حکام سے سوال کیا کہ صحافیوں کو کیوں بلایا گیا ہے؟ وفاقی حکومت صحافیوں پر تشدد کیخلاف رپورٹ 2 ہفتے میں فراہم کرے، عدالت نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp