افغانستان میں مقامی قوتوں اور بیرون ملک سے آنے والے حملہ آوروں کے مابین کشمکش کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ گزشتہ کچھ دہائیوں میں بھی یہی کشمکش جاری رہی اور اس میں کئی نشیب وفراز آئے۔ افغانیوں کی موجودہ نسل انہی حالات میں پروان چڑھی ہے۔ سال 2021 میں ایک تبدیلی یہ آئی کہ امریکہ و نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان کو اقتدار ملا ہے۔
افغانستان پاکستان پڑوسی ہیں ،پڑوسی ایک دوسرے کے دکھ درد سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ،افغانستان پرسویت یونین کا حملہ ہو یا نائن الیون کےبعدامریکی جارحیت،پاکستانی عوام نے افغان بھائیوں کا بھرپورساتھ دیا۔ ریاستی سطح پر کچھ غلط فہمیاں یا غلط فیصلے بھی ہوئے ہوں گے لیکن عوامی سطح پرہمیشہ سےافغان بھائیوں کےساتھ مشکل حالات میں تعاون کیا گیا۔
اس تمام تر صورتحال کے باوجود ریاستی سطح پر دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے کچھ گلے شکوے ہیں۔ کبھی گلے شکوے زیادہ شدت اختیار کر جائیں تو حالات سرد مہری کی طرف بھی بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان میں عشروں سے افغان مہاجر آباد ہیں ،یہاں ان کے کاروبار ہیں ،یہیں ان کی شادیاں بھی ہوئیں ،ان کی جائیدادیں ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان نے ان مہاجرین کے انخلاء کا فیصلہ کیا۔ پاکستان میں بدامنی کے واقعات کی نسبت اکثر ان مہاجرین کی طرف کی جاتی ہے۔ اور اسی بنیاد پر مہاجرین کے انخلاء کا فیصلہ کیا گیا۔ جس سے تعلقات میں کچھ زیادہ ہی سرد مہری آئی۔
ایسے میں ضرورت تھی کسی ایسی شخصیت کی جو دو ملکوں کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو کم کرے۔ کابل میں نئی حکومت کے قیام کے بعد مولانا فضل الرحمان اور کابل انتظامیہ کی دوطرفہ خواہش تھی کہ مولانا وہاں کا دورہ کریں۔ گذشتہ ماہ پاکستان میں متعین امارت اسلامیہ کے سفیر سردار شکیب احمد نے مولانا سے ملاقات کرکے دورہ افغانستان کی دعوت دی جسے مولانا نے قبول کیا اور سات جنوری کو ایک اعلی سطحی جماعتی وفد کے ہمراہ افغانستان روانہ ہوئے۔
مولانا فضل الرحمان نے اپنے اس دورے میں ملا ہیبت اللہ سے بھی ملاقات کی، جنہوں نے اس سے قبل عالمی سطح پر صرف قطر کے وزیراعظم سے ملاقات کی تھی۔ مولانا جب 7 جنوری کو امارت اسلامیہ کی دعوت پر کابل پہنچے تو ایئرپورٹ پر وزیر امر بالمعروف نے حکومتی پروٹوکول کے مطابق استقبال کیا۔ مولانا فضل الرحمان کو ایئرپورٹ سے وی آئی پی پروٹوکول میں سرینا ہوٹل پہنچایا گیا جہاں کچھ دیر آرام کے بعد نائب وزیر اعظم مولوی عبد الکبیر کی جانب سے دیے جانے والے عشائیے میں شرکت کی گئی۔
عشائیہ میں وزیر خارجہ مولوی امیر متقی، وزیر پانی وبجلی مولوی عبد الطیف، وزیر امر بالمعروف شیخ خالد، وزیر مواصلات مولوی نجیب اللہ، وزیر تعلیم مولوی فدا محمد سمیت دیگر وزراء موجود تھے۔ عشائیہ کے بعد مولانا فضل الرحمان کی مولوی عبد الکبیر سے طویل نشست ہوئی جہاں دونوں ملکوں کے امور بحث آئے۔ عشائیے کے بعد مولانا فضل الرحمان پھر ہوٹل پہنچے یہاں رات کا قیام کیا۔
اگلے روز مولانا فضل الرحمان وزیر اعظم امارت اسلامیہ ملا حسن آخند کی جانب سے دیے گئے ظہرانے میں شریک ہوئے۔ وزیر اعظم ملا حسن آخند کے ظہرانے میں چیف جسٹس مولوی عبد الحکیم، وزیر خارجہ ،وزیر مذہبی امور ، وزیر زراعت اور پاکستان میں تعینات سفیر شریک تھے۔ وزیراعظم کے ساتھ مولانا فضل الرحمان کی تین گھنٹے طویل ون آن ون ملاقات بھی ہوئی۔
رات کو وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی کی جانب سے ئیے جانے والے عشائیے میں شرکت کی۔ دوسرے روزامارت اسلامی کے انٹیلی جنس حکام سےبھی طویل نشست ہوئی۔ دن بھر ملاقاتوں کے بعد رات کے قیام کے لیے ہوٹل پہنچے اور تیسرے دن بھی امارت اسلامیہ کے مختلف حکومتی نمائندوں سے ملاقاتیں رہی۔ رات کو افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر عبید الرحمان نظامانی کی جانب سے دیے جانے والے عشائیے میں شرکت کی۔
عشائیے میں پاکستانی سفارتخانے کے تمام ذمہ داران موجود تھے۔عشائیے کے بعد واپس ہوٹل پہنچے اور یوں چوتھے دن کا اختتام ہوا۔ اگلے روز مولانا فضل الرحمان علی الصبح وزیراعظم کے خصوصی طیارے میں کابل سے قندھار پہنچے جہاں سپریم لیڈر ملاہیبت اللہ سے انکی رہائش گاہ پر چار گھنٹے سے زائد ملاقات کی۔ ملا ہیبت اللہ نے مولانا فضل الرحمان کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا اور مولانا کو رات کے قیام کی دعوت دی مگر مولانا فضل الرحمان رات کو واپس قندھار سے کابل پہنچے ملا ہیبت اللہ سے ملاقات میں دونوں ملکوں کے بہترین اور پائیدار تعلقات سمیت تجارت ودیگر امور زیر بحث آئیں اور مہاجرین کے حوالے سے پیدا ہونی والی غلط فہمیوں کو ختم کرکے نئے عزم کے ساتھ آگے مل کر چلنے پر اتفاق کیا گیا۔
یہاں میں نےاس چیز کو بھی محسوس کیاکہ اس دورے سے قبل شاید پاکستانی حکام نے کسی بھی سطح پر تعلقات کو استوار کرنے کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے تھے۔ اگلے روز مولانا فضل الرحمان کی وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی وزیر مہاجرین خلیل الرحمان حقانی سے ملاقات کی۔ رات کو نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر کی جانب سے دیے گئے عشائیے میں شرکت کی جہاں وزیر دفاع ملا یعقوب وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی وزیر تجارت سمیت متعدد دیگر وزراء بھی موجود تھے۔ وفود سے ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمان کی ملا برادر ملا یعقوب اور وزیر خارجہ سے طویل نشست رہی۔ آخری روز افغان قومی ٹی وی کو انٹرویو دیا۔ اس کے بعد ہوٹل سے ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے جہاں وزیر خارجہ ملا امیر متقی، پاکستان میں تعینات سردار شکیب نے انہیں رخصت کیا۔ جمعیت علماء اسلام کے وفد میں وفد میں مولاناشیخ ادریس، مولانا عبدالواسع، مولانا امداد اللہ، مولانا صلاح الدین ایوبی، مولانا عطاء الحق درویش، مفتی ابرار احمد، مولانا جمال الدین، فضل الرحمان خلیل، مولانا عبدالرشید ،سلیم الدین شامزئی، مولانا مصباح اللہ، حافظ یوسف شامل تھے۔
پاکستان اور افغانستان کی آپس میں ملنے والی سرحدوں سے لگتا ہے کہ یہ دو ملک نہیں بلکہ دو شہر ہے میں جب اسلام آباد ایئرپورٹ سے کابل پہنچا تو مجھے یوں لگا جیسے میں اب بھی اپنے ملک میں ہوں وہ بادل جو وہاں تھے وہ دھیرے دھیرے یہاں پہنچے تھے یہ طویل مسافت نہیں بس ایک سرحد سے دوسری سرحد کا ایک سنگم جہاں لوگ ایک جیسے، روایات ایک جیسی اور ایک جیسی ثقافت ہے۔
مولانا فضل الرحمان کے دورہ افغانستان کے بعد پاکستان کی جانب سے تعلقات کی بہتری کی جانب پہلا قدم اٹھا لیا گیا ہے اور طورخم سمیت افغانستان کی سرحد سے منسلک تمام باڈرز پر ڈرائیورز اور مریضوں کو بڑا ریلیف مل گیا ہے۔ امارت اسلامی افغانستان نے ویزہ پالیسی میں نرمی کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔اُمید ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید مثبت اقدامات بھی ہوتے ہوئے نظر آئیں گے اور دونوں ممالک کے باسی پرسکون زندگی گذاریں گے۔