“شہری” ہونے کا تو بہروپ ایویں دھارا ہوا ہے، ویسے میں پکا پینڈو ہوں۔ ہمارے مزاح نگار اور عمدہ شاعر ابرار ندیم تو کہتے ہیں کہ آپ تکلفاً یہ بات کرتے ہیں کہ “میں اصل میں پینڈو ہوں”، آپ لگتے بھی ہیں۔
بہرحال میں نے بھرپور دیہی زندگی گزاری ہوئی ہے۔ باقاعدہ مضامین بھی لکھتا رہوں تو موضوعات ختم نہ ہوں۔ اگر ناول لکھنا چاہوں تو دیہی زندگی پر بہت مواد ہے مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔ پنجابی کا محاورہ ہے نا، “کام جوان کی موت ہے”۔
البتّہ خود سے عہد کیا ہے کہ رواں برس پنجابی میں ایک ناول لکھوں گا۔ انسان کے اپنے بس میں بہت کچھ ہو گا مگر فطرت بھی آپ کو گھیر گھار کر ایسے تربیت کرتی ہے کہ زندگی میں آپ کی راہیں خود ہی متعین ہوتی جاتی ہیں۔
اسی کی دہائی کے پاکستان اور پاکستانیوں کی زندگی بہت سے حوالوں سے یاد گار ہے۔
ننھیالی گاؤں بَھکیاں والا ڈسکہ کے پرائمری اسکول سے نکلے تو 2 میں سے کوئی ایک اسکول آئندہ تعلیم کے لئے چُننے کا مرحلہ تھا۔ ایک تو گھوئنکی کا ہائی اسکول تھا اور دوسرا بھیلو مہار کا مڈل اسکول۔ گھوئنکی کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہاں لڑایاں بہت ہوتی ہیں اور لڑکے بسوں کی چھتوں پر چڑھ کر بلا وجہ آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں۔
گھوئنکی سیال کوٹ گاؤں کا ایک بڑا قصبہ ہے۔ گھمن برادری یہاں کی اکثریتی آبادی ہے۔ عبد الغنی گھمن کے گاؤں کا نام کوٹ کرم بخش تھا جسے عُرفِ عام میں کرماں دا کوٹ کہتے ہیں۔ یہ گھوئنکی کے نواح میں ہے لیکن عبد الغنی ‘گھمن آف گھوئنکی’ کے نام سے ہی معروف ہوئے۔ حالیہ تاریخ میں گھمن قبیلے میں عبد الغنی ہی وہ سیاست دان ہیں جنہوں نے گھمن برادری کی پہچان کروائی۔ ایوب خان کے زمانے میں عبد الغنی گھمن چیئرمین ضلع کونسل (ڈسٹرکٹ بورڈ) سیال کوٹ بنے۔ تمام ڈسٹرکٹ بورڈز کے سربراہوں نے پورے صوبے کا چوہدری عبد الغنی کو چیئرمین منتخب کیا۔
بہرحال ‘رائے عامہ’ بھیلو مہار اسکول کے حق میں ہی ہموار ہوئی کہ وہاں پڑھائی بہت اچھی ہے۔ پھر نانا جی کے چچا زاد بھائی سرور صاحب بھی اُدھر اُستاد تھے اور گاؤں کے لڑکوں کا اسی ہائی اسکول جانے کا رواج بھی تھا ہے۔ وہ شاید قریب بھی تھا۔ مجھ سے پہلے بھٹو (شمشاد) واحد طالب علم تھا جو بھیلو مہار کے مڈل اسکول جایا کرتا تھا۔ یاد رہے کہ ذو الفقار علی بھٹو کے زمانے میں پیدا ہونے والے بہت سے بچوں کو گھروں میں لاڈ پیار سے لوگ بھٹو کہہ کر پکارتے تھے۔
بھیلو مہار سیال کوٹ ڈسکہ روڈ پر واقع ہے جب کہ ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں آلو مہار ہے۔ یہ گاؤں کئی حوالوں سے معروف ہے۔
صاحب زادہ فیض الحسن شاہ ایک دہائی کے لگ بھگ جمعیتِ العُلماء پاکستان کے سربراہ رہے۔ ختمِ نبوت تحریک میں ان کا کردار بہت نمایاں تھا۔ وہ بلا کے مقرر تھے۔ نامور صحافی، محقق اور کالم نگار سبط الحسن ضیغم مرحوم کا تعلق بھی آلو مہار سے ہی تھا۔ اپنے وقت کی معروف ٹی وی فن کارہ طاہرہ نقوی بھی اس گاؤں کی جم پل تھیں۔ قومی کرکٹر بلا ل آصف بھی یہی کے رہنے والے ہیں۔ اتفاق سے بلال بھی گھمن ہیں مگر نام کے ساتھ نہیں لکھتے۔
صاحب زادہ فیض الحسن کے بیٹے سید افتخار الحسن شاہ المعروف ظاہرے شاہ متعدد بار ایم پی اے اور ایم این اے رہے۔ این اے 75 ڈسکہ سے منتخب ہونے والے ایم این اے ظاہرے شاہ کی وفات کے بعد ان کی بیٹی نوشین افتخار نے اسی حلقے سے 20 فروری 2021 کو ضمنی الیکشن لڑا۔ اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت تھی جب کہ نوشین مسلم لیگ (ن) کی طرف سے قومی اسمبلی کی امید وار تھیں۔ یہ الیکشن شدید تنازعات کا شکار ہوا۔ پورے ملک میں اس الیکشن کی باز گشت سُنی گئی۔
میں بات کر رہا تھا بھیلو مہار کے گورنمنٹ مڈل اسکول کی جو تعلیمی اعتبار اور کھیلوں کی وجہ سے بہت اچھے تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا تھا۔ مڈل کا امتحان گوجرانوالا بورڈ لیتا تھا۔ ہمارے اکثر اساتذہ انتہائی محنتی اور لائق تھے۔ عزیز گھمن ہیڈ ماسٹر تھے۔ ان کا تعلق کوٹ کرم بخش سے تھا۔ ان کا اتنا رُعب اور دبدبہ تھا کہ سابقہ اور موجودہ کن ٹُٹے طالب علم بھی ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ وہ راہ چلتے لڑکے کو پکڑ کر اس کے پیٹ پر اس زور سے ہاتھ سے مروڑا دیتے کہ اگلا بندہ درد سے دُہرا اور لال سُرخ ہو جاتا مگر اُف تک نہ کرتا۔
سرور صاحب اردو، فارسی اور حساب پڑھاتے تھے۔ وہ رشتے میں میرے نانا تھے لیکن کم عمر ہونے کی وجہ سے میں انہیں ماموں کہتا۔ وہ تمام مضامین کے بہترین استاد تھے۔ وزیر صاحب پرائمری اسکول میں بھی میرے استاد رہ چُکے تھے۔ وہ بھیلو مہار مڈل اسکول میں بھی پرائمری کے استاد تھے مگر بڑی کلاسوں کو اسلامیات پڑھاتے تھے۔ واحد صاحب بھی پرائمری حصے کے استاد تھے مگر ان کا رُعب پورے اسکول کا ڈسپلن قائم کرنے کے لئے استعمال ہوتا۔
نزیر صاحب، صدیق صاحب اور دیگر اساتذہ بھی اپنی اپنی جگہ بہت محنتی اور اچھے تھے۔ فتح علی صاحب ہمیں بہت مزے دار انداز میں زراعت پڑھایا کرتے تھے۔ یونس گِل صاحب صاحب پی ٹی ٹیچر تھے۔ 6 فُٹ کے خوب صورت جوان۔ ان کے قد بُت سے ہی لگتا تھا کہ وہ پی ٹی آئی ہیں۔ انہوں نے اسکول کی کبڈی، والی وال، ہاکی، اور فُٹ بال کی بہترین ٹیمیں تیار کیں۔ اسکول کا بینڈ بھی گزارے لائق اچھا تھا۔ یوسف بہت اچھا نعت خواں تھا۔ بینڈ کا لیڈر تھا اور خود ڈرم بھی بہت اچھا بجاتا تھا۔ شیرو بٹ کبڈی کا کمال کھلاڑی تھا۔ یونس گِل صاحب نے ہماری بہت عمدہ طریقے سے اخلاقی تربیت کی۔ وہ اسمبلی میں تقریر کیا کرتے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ اچھا انسان بننا معاشرے کے لیے کتنا فائدہ مند ہے۔ جب کوئی اُستاد چُٹھی پر ہوتا یا کسی وجہ سے کلاس نہ لے پاتا تو وہ کلاس لیتے۔ وہ اتنی عمدہ اور حوصلہ افزا گُفتگو کرتے کہ دل چاہتا وہ بولتے رہیں اور ہم سُنتے رہیں۔
پچھلے دنوں میں اپنے ننھیال گیا ہوا تھا تو سرور صاحب سے ملا قات ہوئی تو علم ہوا کہ یونس گِل صاحب رب کو پیارے ہو گئے ہیں۔ سُن کر دُکھ ہوا اور ان کی باتیں اور یادیں ذہن میں گھوم گئیں۔ جب تک زندگی رہے گی ان کی باتیں اور یادیں اسی طرح ساتھ رہیں گی۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا