بلوچستان کے کن حلقوں میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے؟

پیر 29 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عام انتخابات میں چند ہی روز باقی رہ گئے ہیں اور ایسے میں ملک بھر میں سیاسی گہما گہمی عروج پر آچکی ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کارنر میٹنگ، جلسے جلوسوں اور مختلف اقسام کی انتخابی مہم میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور ہر امیدوار کی کوشش یہ ہے کہ عوام کو اپنی جانب مائل کر سکے۔ بلوچستان میں بھی صورتحال ملک بھر سے مختلف نہیں۔

صوبے کی اہم سیاسی، سماجی، قبائلی اور مذہبی شخصیات اپنے اپنے حلقوں میں موجود ہیں۔ رقبے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں کچھ حلقے ایسے ہیں جہاں امیدواروں کے درمیان کڑا مقابلہ متوقع ہے۔

بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 16 جنرل نسشتوں پر مجموعی طور پر 442 امیدوار میدان میں ہیں جن میں 428 مرد جبکہ 18 خواتین امیدوار شامل ہیں۔ قومی اسمبلی میں مرکز کی نظریاتی، مذہبی، صوبے کی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدوار بھی پنجہ آزمائی کے لیے میدان میں ہیں۔

 

سخت مقابلے کے لحاظ سے این اے 256، این اے 257، این اے 261 این اے 262 اور این اے 263 سرفہرست حلقوں میں شمار کیے جا رہے ہیں۔

ضلع خضدار پر مشتمل قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 256 کا شمار صوبے کے اہم حلقوں میں ہوتا ہے ماضی میں اس حلقے سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربارہ سردار اختر مینگل نے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ یہ حلقہ سردار اختر مینگل کا آبائی حلقہ بھی ہے۔

آئندہ انتخابات کے لیے اس حلقے سے مجموعی طور پر مجموعی طور پر 15 امیدوار ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس حلقے میں بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل اور آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے شفیق مینگل کے درمیان دلچسپ مقابلے کی توقع ہے۔

لسبیلہ، حب اور آوران پر مشتمل قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 257 بھی ایم حلقوں میں سے ایک ہے اس حلقے پر مجموعی  ظور پر 18 امیدواد میدان میں ہیں تاہم مبسریں کے مطابق اس حلقے میں 2 بڑی قبائلی شخصیات ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کرنے کے لیے تیار ہیں ان شخصیات میں بلوچستان سے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان پاکستان مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر جبکہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان صالح بھوتانی بھی آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

قلات، سوراب اور مستونگ پر مشتمل قومی اسممبلی کا حلقہ این اے 261 کی اہمیت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس حلقے سے مجموعی طور پر 27 امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں تاہم یہ حلقہ بھی صوبے کے بڑے سیاسی کھلاڑیوں سے بھرا پڑا ہے لیکن سیاسی ماہرین کے مطابق اس حلقے میں 2 امیدوروں کی پوزیشن باقیوں سے زیادہ مستحکم نظر آتی ہے۔ حلقے میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل اور پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے درمیان کڑے مقابلے کا امکان ہے۔

صوبے کے اہم حلقوں کی بات ہو اور ایسے میں بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔ وادی کوئٹہ میں قومی اسمبلی تیں نشستیں موجود ہیں جن مین این اے 262، این اے 263 اور این اے 264 شامل ہیں ان تیں میں سے 2 حلقے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اب بات کی جائے اگر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 262 کی تو یہ حلقہ کوئٹہ کے پشتون آباد علاقے پر محیط ہے اس حلقے میں 37 امیدوار میدان میں ہیں تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق اس حلقے میں جمعت علماء اسلام ف کے رہنما ملک سکندر اکیڈوکیٹ اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما نواب ایاز جوگیزئی کے درمیان مقبالہ متوقع ہے واضیح رہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 پشین پر پی کے میپ کے سربراہ جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے حق میں دست بردار ہوچکے ہیں۔

کوئٹہ سے قومی اسمبلی کا حلقہ این 263 سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ حلقہ کوئٹہ کے وسطی علاقوں پر مشتمل ہے اس حلقے میں پشتون، بلوچ، براہوی، پنجابی، سندھی، ہزارہ سمیت کئی اقوام آباد ہیں اور اس حلقے میں اکثر کوئی نہ کوئی امیدوار سرپرائز دیتا رہا ہے۔

ماضی میں اس حلقے سے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما قاسم خان سوری نے بڑے بڑے سیاسی سورماں کی شکست دی تھی تاہم اس بار اس حلقے سے 42 امیدوار میدان میں ہیں تاہم سیاسی مبصرین کا یہ مننا ہے کہ اس حلقہ سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے والے نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی اور پاکستان تحریک انصاف کے سالار خان کاکڑ کے درمیان کڑا مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp