آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں سائفر کیس کی سماعت کے بعد مختصر اور زبانی فیصلہ سنایا اور بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کو 10 سال قید بامشقت کی سزا دے دی۔ اس فیصلے کے بعد دونوں لیڈروں کے لیے مشکلات اور بھی بڑھ گئی ہیں۔
وی نیوز نے قانونی ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو کب تک ضمانت مل جائے گی اور اس کیس کے محرکات کیا ہیں۔
عمران خان اور شاہ محمود کو فوراً ضمانت ملنے کا کوئی امکان نہیں، حسن رضا پاشا
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں سزا 10 سال کی ہوئی ہے اور یہ شارٹ سینٹنس کی کیٹیگری میں شمار نہیں ہوتی اس لیے ابھی فوری طور پر دونوں کو ضمانت ملنے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔
مزید پڑھیں
حسن رضا نے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں 3 سال کی سزا ہوئی تھی اور اسے قانونی اصطلاح میں شارٹ سینٹنس کہا جاتا ہے لیکن یہ 10 سال کی سزا ہے جو شارٹ سینٹنس میں نہیں آتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’میرا خیال ہے عدالتوں کے معمول کے پیش نظر ایک سال سے پہلے ضمانت ملنا انتہائی مشکل ہو گا‘۔
حسن رضا پاشا نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت یہ پہلا ٹرائل اور فیصلہ ہے جو کہ سویلین عدالت میں ہوا ہے اس سے پہلے ملٹری کورٹس نے کیے ہوں گے، اس ٹرائل میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا جرح کے لیے 4 تاریخوں پر حاضر نہیں ہوئے شاید وکلا تاخیری حربہ استعمال کر رہے تھے اور ان کی عدم پیشی پر عدالت نے مجبوراً سرکاری وکلا کو جرح کے لیے مقرر کیا جس پر ملزمان نے اعتراض کیا، اب اگر اپیلیٹ کورٹ سے ٹیکنیکل گراؤنڈ پر ریلیف ملے گا تو وہ یہ ہوگا کہ کیس کو ریمانڈ کر دیا جائے گا اور ان کے وکلا کو ان گواہان سے دوبارہ جرح کرنے کا موقع ملے گا۔
سزا معطلی کی درخواست ہائیکورٹ میں دائر کی جا سکتی ہے، جی ایم چوہدری
ماہر قانون جی ایم چوہدری نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ فیصلے کی کاپی موصول ہوتے ہی سزا معطلی کی درخواست ہائیکورٹ میں دائر کر دیں، اگر اس درخواست کی جلد شنوائی ہو جائے تو چونکہ فیصلے میں کچھ قانونی کمزوریاں ہیں اس لیے جلد ہی سزا معطل ہو جائے گی لیکن اس سب سے پہلے فیصلے کے خلاف اپیل کا جلد سماعت کے لیے مقرر ہونا ضروری ہے۔
جی ایم چوہدری نے کہا کہ اس وقت جو حالات ہیں ایسا لگ نہیں رہا کہ فیصلے کے خلاف اپیل جلد سماعت کے لیے مقرر ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عدالتی تاریخ دیکھی جائے تو ایسے سیاسی کیسز کہ جن میں 10 سال سے اوپر کی سزا ہوئی ہو وہ جلد ہی معطل ہو جاتی ہے۔
سائفر کیس فیصلے کے سیاسی محرکات واضح ہیں، عرفان قادر
اس حوالے سے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کا جو فیصلہ آیا ہے اس کے سیاسی محرکات واضح ہیں، پی ٹی ائی کارکنان تو فیصلے کو نہیں مانیں گے اور کہیں گے کہ ہم سے زیادتی ہوئی ہے اور ہمارے دونوں بڑے لیڈروں کو اس طرح فوری سزا دے دی گئی ہے، ہم مظلوم ہیں اور کارکنان کوشش کریں گے کہ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات اس فیصلے کا فائدہ اٹھایا جائے کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔
عرفان قادر نے کہا کہ پی ٹی آئی مخالفین اس فیصلے پر تنقید کریں گے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہیں اور انہوں نے آفیشل سیکریٹس لیک کیے گئے ہیں تو یہ ساری باتیں جو ہیں وہ ان کے مخالفین کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ قانونی پہلوؤں سے زیادہ اب سیاسی پہلو پر یہ فیصلہ اثرانداز ہوگا اور دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں لوگوں کا کیا رجحان ہوتا ہے وہ اس فیصلے کو سیاسی طور پر کس طرح سے دیکھتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس فیصلے کے بعد پی ٹی ائی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوتا ہے یا کمی آتی ہے۔
عمران خان اور شاہ محمود کو سنائی گئی سزا شاید کم ہے، اشتر اوصاف
سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ سائفر کیس ایک انتہائی حساس کیس تھا اس کیس کو بہت احتیاط سے دیکھنا بھی چاہیے تھا اور چلانا بھی تھا، میں چونکہ اس کیس کو فالو کرتا رہا ہوں اس لیے میں اپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ نیشنل سیکیورٹی کے جو معاملات ہوتے ہیں ان میں کوئی کوتاہی نہیں ہو سکتی۔
اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ یہاں پر تو ایک وزیراعظم نے اس معاملے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، ملک کی سالمیت اور خارجی تعلقات کو داؤ پر لگایا اور بعد ازاں مختلف ممالک سے پاکستان کے تعلقات خراب ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے حلف لیا تو ہے کہ ایسے معاملات کی تشہیر نہیں ہو گی، اس طرح کر کے آئین کی خلاف ورزی بھی کی گئی۔
سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں جو سزا سنائی گئی ہے وہ شاید کم ہے کیونکہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایک وزیراعظم نے بالکل پرواہ نہیں کی کہ ملکی سالمیت پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے پاس اپیل کا حق موجود ہے اور جب دونوں پر فرد جرم عائد کی گئی تو انہوں نے کوئی واضح دفاع نہیں کیا اور کہا کہ سائفر وزیراعظم ہاؤس میں ہے لیکن جب ثبوت مانگے گئے تو وہ یہ ثابت نہیں کر سکے۔
عمران خان نے وکلا کو استعمال کر کے کیس میں تاخیری حربے استعمال کیے
ان کا کہنا تھا کہ ٹرائل کے دوران وکلا کو استعمال کر کے ٹرائل میں تاخیر کی گئی جو ایک سابق وزیراعظم کے شایان شان نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یہ ایسا کیس ہے کہ جس میں ضروری سزا ہونی چاہیے تھی۔
اشتر اوصاف نے کہا کہ سائفر کا ان لوگوں کے سامنے انکشاف کر دیا گیا جن کی کوئی اتھارٹی نہیں تھی اور اس کے علاوہ اسے عوامی اجتماع میں لہرا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی جو ان کے سیکرہٹری کے ساتھ گفتگو لیک ہوئی تھی اس میں بھی عمران خان سے کہا گیا تھا کہ سائفر معاملے کو سیاسی نہیں سفارتی طریقے سے حل کریں۔