پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین گوہر خان نے کہا ہے کہ عمران خان کے مقدمات پر حق دفاع تو دور کی بات جج صاحبان کی طرف سے ہمارے ساتھ بہت زیادہ نا انصافی کی گئی ہے۔ جن طریقوں سے مقدمہ چلایا گیا وہ مکمل طور پر غیر آئینی تھا۔
Related Posts
بدھ کو ایک ٹی وی انٹرویو میں گوہر خان نے کہا کہ سائفر اور توشہ خانہ کیس دونوں میں عمران خان کے وکلا کو پیش نہیں ہونے دیا گیا، قومی احتساب بیورو کے آئین کے مطابق مقدمے کو 6 ماہ کے اندر ختم کرنا ہوتا ہے۔ اس میں ملزم کو بھی اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دینا ہوتا ہے لیکن اس کے لیے وکلا کو پیش ہونے کا موقع دیا گیا نہ ہی جرح کی گئی، ایک کیس میں وکلا کے ہوتے ہوئے ہمارے حقوق کو حذف کیا گیا۔
ہمیں جرح کرنے کی اجازت نہیں دی گئی
انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ کے تفصیلی فیصلے میں یہ بات مکمل غلط لکھی گئی ہے کہ وکلا پیش نہیں ہوئے یا حیلے بہانے کرتے رہے، اس مقدمے میں مَیں خود بھی موجود تھا، عمران خان کو جج نے الگ کمرے میں بلا کر سنا، ہمیں جرح کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
گواہ کی پروٹیکشن کا وقت نہیں دیا گیا
ایک سوال کے جواب انہوں نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو راستے ہی سے گرفتار کر لیا گیا تھا، ہم نے بیان میں دے دیا تھا کہ گواہ پیش کریں گے لیکن گواہ کی پروٹیکشن کا بھی جج صاحب نے وقت نہیں دیا۔ اختتامی بیانات قلمبند کرانے کا بھی موقع نہیں دیا گیا۔
توشہ خانہ کیس سے بشریٰ بی بی کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں
انہوں نے کہا کہ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ’توشہ خانہ کیس‘ سے بشریٰ بی بی کا دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں ہے، عمران خان کے نام جتنے بھی تحائف آئے ہیں، ان میں کہیں بھی بشریٰ بی بی کا نام ہے نہ ہی ان کے نام کی کوئی رسید ہے یا ان کی طرف سے کوئی ادائیگی کی گئی ہے۔ ان کا ریکارڈ میں کہیں کوئی نام ہی درج نہیں ہے۔ ہم نے یہ ثبوت عدالت میں پیش کیے ہیں۔
سارے تحائف عمران خان کے نام ہیں
انہوں نے کہا کہ 58 کے قریب جو تحائف آئے ہیں وہ سارے کے سارے عمران خان کے نام پر ہیں۔ جس طرح ٹرائل چلایا گیا وہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، ایک ماہ میں ٹرائل کیسے مکمل ہو گئے۔ فیصلہ سنانے میں آدھا گھنٹا بھی نہیں لگایا گیا۔
سزاؤں اور فیصلے کی معطلی کی درخواست اسی ہفتے فائل کریں گے
توشہ خانہ کیس عدلیہ کے لیے بھی ٹیسٹ کیس ہے، اب ہم سائفر اور توشہ خانہ دونوں مقدمات میں اپیل کے لیے ہائیکورٹ میں اپیل فائل کریں گے یہ ہمارا حق بنتا ہے، اس کے علاوہ سزاؤں اور فیصلے کی معطلی کے لیے بھی ہم اسی ہفتے درخواست فائل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ اور سائفر کیس کی کاپی بھی فراہم نہیں کی جا رہی ہے، یہ کہنا غلط ہے کہ تحریک انصاف نے مقدمے میں قانونی پہلوؤں پر توجہ نہیں دی، ایسا بالکل نہیں ہے ہم نے تمام قانونی پہلوؤں پر توجہ دی، ہم اس وقت ایک سسٹم کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے الزام لگایا کہ جج نے انصاف نہیں کیا بلکہ انہوں نے دوسری پارٹی کی حمایت کی اور ان کے راستے پر چل پڑے، حتیٰ کہ بشریٰ بی بی کے بیان قلمبند کروانے کے دوران جج صاحب 5 مرتبہ اُٹھ کر کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے اور واپس آ کر کہتے جلدی کرو، اسے ختم کرو، وہ بھی رات 8 بجے کے بعد، یہ وہ مقدمات ہیں جن کو کورٹ آوور ٹائم نہیں سنا جا سکتا۔
عدلیہ کو کسی صورت استعمال نہیں ہونا چاہیے، گوہر خان
ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ایسا صرف پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہی نہیں بلکہ کسی کے بھی خلاف نہیں ہونا چاہیے، یہ ’کلیش آف ٹائٹل‘ اب ختم ہو جانا چاہیے، اس کے لیے سیز فائر ہونا چاہیے۔ عدلیہ کو کسی صورت استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف ملک میں آئے تو ان کے لیے سرخ قالین بچھایا گیا وہ سیدھے عدالت چلے گئے اور نیب کہتا ہے ہم ان کے خلاف اپنے مقدمات واپس لے رہے ہیں۔
نواز شریف نے کبھی شکوہ نہیں کیا کہ عدلیہ سے انہیں انصاف نہیں ملا
انہوں نے کہا کہ اگر نواز شریف کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہے تو وہ بھی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ لیکن دوسری طرف دیکھیں کہ نواز شریف نے کبھی کسی عدالت سے شکوہ نہیں کیا کہ مجھے عدالت سے انصاف نہیں ملا، ان کی جرح کا حق ختم نہیں کیا گیا، نواز شریف یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں 342 کا بیان دینے کے لیے وقت نہیں دیا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ نے وقت دیا تھا کہ آپ کے پاس اربوں روپے کی جو جائیداد ہے یہ کہاں سے آئی ہے اس کے لیے کوئی ثبوت پیش کر دیں لیکن وہ ثبوت دینے میں ناکام ہوئے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ ایسا آئندہ نہ کسی وزیر اعظم کے ساتھ، بلکہ کسی کے ساتھ بھی نہیں ہونا چاہیے جس میں عدلیہ استعمال ہو، عدلیہ کو استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
مریم نواز اور بشریٰ بی بی کا مقدمہ مختلف ہے
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بشریٰ بی بی اور مریم نواز کا مقدمہ بھی مکمل مختلف ہے، مریم نواز کے نام بے شمار جائیداد اور اثاثے سامنے آئے تھے جب کہ توشہ خانہ کیس میں بشریٰ بی بی کے نام تو کوئی جائیداد یا اثاثے موجود ہی نہیں ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاست میں کوئی ’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘ نہیں ہوتا، ہماری 2 حکومتیں ختم کی گئیں، آج ہمیں پھر لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جا رہی ہے۔
میں نے بونیر میں جلسہ کیا وہاں پولیس اور انتظامیہ نے میرے ساتھ تعاون کیا، لیکن باقی جگہوں پر تو پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا جا رہا ہے۔ جب فارم 33 جاری ہو جائے تو پھر آپ کسی کو الیکشن میں حصہ لینے سے نہیں روک سکتے، لیکن سب نے دیکھا اس کے باوجود ہمیں مہم چلانے اور جلسے کرنے سے روکا جا رہا ہے جب کہ اور کسی کو نہیں روکا جا رہا ہے۔
9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بننا چاہیے
ایک اور سوال کے جواب میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم 9 مئی کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے درخواست کر چکے ہیں کہ وہ اس پر ایک کمیشن قائم کریں۔ عمران خان تو 9 مئی کے کسی واقعے میں ملوث نہیں نہ ہی ان پر 9 مئی کے حوالے سے کوئی مقدمہ چلایا گیا، 9 مئی تو بس ایک بہانہ ہے۔
اعتماد سازی کے لیے صاف و شفاف انتخابات ناگزیر ہیں
انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اعتماد سازی کا پہلا عمل یہی ہو گا کہ ملک میں صاف و شفاف انتخابات کرائے جائیں۔ اب اس کے لیے دوسری جانب سے بھی تو اعتماد سازی کے لیے کوئی قدم اٹھایا جانا چاہیے۔
پی ٹی آئی میں کوئی پلانٹڈ نہیں ہے
ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر گوہر نے بلاول بھٹو کے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ پی ٹی آئی میں کوئی پلانٹڈ لوگ موجود ہیں، انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو خود چیئرمین ایک پارٹی کے ہیں اور الیکشن دوسری پارٹی کی طرف سے لڑ رہے ہیں۔
الیکشن جیتنے والے کسی دوسری پارٹی میں نہیں جائیں گے
عمران خان سے جیل میں ملنے نہیں دیا جا رہا ہے، ایسا نہیں ہو گا کہ پی ٹی آئی کے جیتنے والے لوگ دوسری پارٹیوں میں چلے جائیں گے، یہ پارٹی کے وفادار لوگ ہیں یہ کسی اور پارٹی کو کبھی جوائن نہیں کریں گے، فروری میں انٹرا پارٹی الیکشن بھی کروائیں گے۔
الیکشن شفاف ہوئے تو دو تہائی اکثریت سے حکومت بنائیں گے، وزیر اعظم عمران خان ہوں گے
ایک سوال کے جوا ب میں انہوں نے کہا کہ صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے پاکستان تحریک انصاف کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہے۔ ہم جمہوریت کے استحکام کے لیے سب کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں لیکن حکومت سازی کے لیے کسی کے ساتھ ملنے کا ابھی کوئی امکان نہیں کیوں کہ ہمیں اُمید ہے کہ اگر انتخابات صاف و شفاف ہوئے تو پی ٹی آئی ہی دو تہائی اکثریت حاصل کر کے حکومت بنائے گی اور اس کے وزیر اعظم عمران خان ہی ہوں گے۔ انہیں ضمنی انتخابات لڑوائیں گے۔