سائفر کیس کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی ذمے داری تھی کہ وہ بطور وزیراعظم سائفر وزارت خارجہ کو واپس بھیجتے، انہوں نے اب تک سائفر کی کاپی واپس نہیں کی، اور اس ضمن میں استغاثے کی کوئی تردید نہیں کی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کیخلاف سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ دستاویز یعنی سائفر کو واپس کرنا سابق وزیراعظم عمران احمد خان نیازی کی ذمہ داری تھی کیونکہ یہ بلاک وارننگ تھی اور یہ وصول کنندہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسے مقرہ طریقہ کار کے مطابق جہاں سے موصول ہوا ہے وہیں واپس بھیجے۔
مزید پڑھیں
’۔۔۔چونکہ اس وقت عمران احمد خان نیازی بطور وزیر اعظم اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے، اس لیے وزارت خارجہ اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ سائفر کی واپسی کے حوالے سے پوچھ سکتی کیونکہ قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے کوئی بھی وزیر اعظم کو مذکورہ دستاویز کی واپسی کے حوالے سے پوچھنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سائفر کیس تاخیر سے نہیں بلکہ17 ماہ کی بھرپور تحقیقات کے بعد دائر کیا گیا، جس میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے، حتمی ایف آئی آر کا مقصد قانون کو حرکت میں لانا تھا۔
77 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم عمران خان نے سائفر وزارت خارجہ کوواپس نہیں بھیجا، سائفرکے معاملے سے دیگرممالک کے ساتھ تعلقات پراثر پڑا، جس سے دشمنوں کوفائدہ ہوا، سماعت کے دوران وکلا صفائی غیرسنجیدہ دکھائی دیے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق دوران سماعت عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے خود ساختہ پریشانیاں بنائیں اور ہمدردیاں لینے کےلیے بے یارو مددگار بننے کی کوشش کی، دونوں ملزمان نے عدالت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے مقدمے کو طول دینے کی کوشش کی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عدالت میں غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنایا۔
’۔۔۔انہوں نے صرف آنکھ مچولی کا کھیل کھیلا اور پوری کارروائی کو طنزیہ انداز میں لیا، جس کی قانون میں کوئی ضمانت نہیں ہے اور ان کارروائیوں کو طول دینے کے لیے مختلف درخواستیں دائر کرکے اپنے مختلف موقف کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔‘
فیصلے کے مطابق استغاثے کی جانب سے تمام شواہد نے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ گواہوں کے بیانات کی روشنی میں موقف کی مکمل تصدیق کی، ریکارڈ پر ایسا کوئی بھی ڈینٹ دستیاب نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ استغاثہ کے گواہوں کے چشم دید بیانوں میں کوئی خامی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 27 مارچ 2022 کو، ملزم عمران احمد خان نیازی نے بطور وزیر اعظم، ایک عوامی جلسے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہراتے ہوئے اسے خط کا حوالہ دیا اور اپنی حکومت کو گرانے کی غیر ملکی سازش کے بے بنیاد الزامات لگاتے رہے۔
فیصلے کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ ملزمان نے مذموم مقاصد کے ساتھ پاکستان کے سائفر سسٹم کو نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں غیر دوست بیرونی طاقتوں کو براہ راست یا بالواسطہ فائدہ پہنچا۔
’شریک ملزم شاہ محمود قریشی کی ملی بھگت سے ملزم عمران احمد خان نیازی کے اس فعل نے پاکستان کے سائفر سسٹم کی حفاظت، سالمیت اور ساکھ پر سنگین منفی اثرات مرتب کیے اور پاکستان کے غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ تعلقات کو بھی سرد مہری کی نذر کیا۔‘
فیصلے کے مطابق جمعرات، 31 مارچ 2022 کو، پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے، ملزم عمران احمد خان نیازی نے امریکا کو اس ملک کے طور پر نامزد کیا جس نے نام نہاد ’دھمکی آمیز میمو‘ بھیجا تھا، اس نے پاک امریکا تعلقات میں ایک ایسے نازک وقت میں فوری اور متوقع تناؤ پیدا کیا، جب ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر بین الاقوامی قرض دہندگان کے حوالے سے امریکی مدد کی درکار تھی۔
’۔۔۔یہ بالکل واضح ہے کہ یہ ایک دانستہ اور منصوبہ بندی کے تحت جوڑ توڑ کا جھوٹ تھا، جس کا مقصد پاکستان کے بیرونی تعلقات کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے مفادات کی پرواہ کیے بغیر عوامی جذبات کو ابھارنا تھا۔‘