دیہی علاقوں کی سیاست

جمعہ 2 فروری 2024
author image

فریحہ رحمان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چند برس ادھر کی بات ہے۔ میرا تحصیل لورہ میں واقع اپنے گاؤں ووٹ کاسٹ کرنے جانا ہوا۔ بلند و بالا پہاڑی علاقے میں واقعہ گاؤں کا ہر فرد اپنے علاقے کے لوگوں، ان کے مسائل اور اب تک اپنے علاقے کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے اچھی طرح باخبر نظر آیا۔ اس وقت وہاں ہر گھر میں ٹی وی تھا نہ معلومات حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ، پولنگ اسٹیشن پر ڈیوٹی پر مامور چند خواتین ہی پڑھی لکھی تھیں جو اتنی سمجھدار سمجھی گئیں کہ اس دیہی علاقے کی دیگر خواتین کا ووٹ کاسٹ کروا سکیں۔

صبح سویرے اٹھنا ہمیشہ سے ہی دیہی علاقوں کے لوگوں کا معمول ہی رہا ہے۔ چنانچہ صبح کی روشنی پھیلتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد نے پولنگ اسٹیشن کا رخ کیا۔ گاؤں کے اسکول کی خستہ حال عمارت میں بنائے گئے پولنگ اسٹیشن تک طویل مسافت لوگوں نے الیکشن کے بارے میں بحث و تکرار میں طے کی۔ خواتین کی ہر ممکن کوشش رہی کہ دوسری خواتین ان کے ہی سوچے ہوئے انتخابی نشان پر مہر لگائیں جس کے بارے میں انہیں گھر سے سمجھا کر بھیجا گیا تھا۔ گو کہ انہیں اپنے امیدوار کے بارے میں زیادہ معلومات نہ تھی لیکن پھر بھی شدید قسم کی بحث و تکرار جاری تھی۔ دوسری جانب پولنگ اسٹیشن پر ڈیوٹی پر مامور خواتین بھی اشارے میں دیگر خواتین کو اپنے پسندیدہ انتخابی نشان پر مہر لگانے کا کہہ رہی تھیں۔ سیاسی امیدواروں کے نمائندوں کو خدمتِ خلق کا اتنا خیال تھا کہ خواتین کے پولنگ اسٹیشن میں وقتاً فوقتاً ڈرنکس بھیجے جا رہے تھے۔ اس دوران گھر کے مرد اپنی برادری اور قوم کے امیدوار کو ہی ووٹ دینے پر اصرار کر رہے تھے اور خواتین کو متعلقہ انتخابی نشانات بھی اچھی طرح ذہن نشین کرائے گئے تھے۔

کئی برس بیت گئے اب جب کہ اس گاؤں کا تعلمی معیار کچھ حد تک بہتر ہے اور ٹی وی اور دیگر معلوماتی ذرائع بھی لوگوں کی دسترس میں ہیں۔ گاؤں سے شہر تک رسائی بھی کافی حد تک بڑھ گئی ہے۔ اگر مقررہ تاریخ پر الیکشن ہو جاتے ہیں، جو کہ فی الحال ممکن نظر نہیں آتا، تو پولنگ اسٹیشنز پر حالات تو پہلے جیسے ہی ہوں گے لیکن ہو سکتا ہے کہ دیہی علاقوں میں نتائج غیر یقینی ہوں کیونکہ اب کی بار سوشل میڈیا پر سیاسی مہمات نے ووٹر کو بہت باشعور کر دیا ہے اور انہیں پتہ ہے کہ کون سا امیدوار ان کے علاقے کی بہتری کے لیے کام کرے گا۔ دیہی علاقوں کے ووٹرز ووٹ دیتے وقت اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں کہ اگر ان کے خاندان کا کوئی بندہ انتخابات میں حصہ لے رہا ہے تو وہ اسی کو اپنا ووٹ دیں اور انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ وہی مستقبل میں ان کے فائدے کے لیے کام کرے گا۔ اس کے علاوہ وہ اپنی برادری، قوم اور بزرگوں کی رائے کو بھی ووٹ دیتے وقت مد نظر رکھتے ہیں۔

دوسری جانب دیہی علاقوں کے بڑے بزرگ اپنی برادری کے ووٹرز کے لیے اسی پارٹی کے امیدوار کا انتخاب کریں گے جو ان کو اپنے علاقے کے لیے بہتر نظر آئے گا۔ حال ہی میں دیے گئے انتخابی نشانات تو اب کی بار بھی لوگوں کو ذہن نشین کرائے جا رہے ہیں لیکن کون کس پر مہر لگا کر آئے گا، کوئی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ خاص طور پر دیہی علاقے کے نوجوان، کیونکہ آگہی کا جادو ان کے سر چڑھ کر بولے گا۔

موجودہ سیاسی معاشی بحران نے لوگوں کی آنکھیں کافی حد تک کھول دی ہیں اور اب دور دراز رہنے والے ہر دیہاتی کو یہ پتہ ہے کہ کہاں کیا ہو رہا ہے اور ان کے لیے کیا بہتر ہے۔ دن بدن بگڑتے سیاسی حالات ہر ایک کے لیے پریشان کن ہیں جنہیں بدلنے کے لیے لوگ صرف بہترین امیدوار کو ہی اپنا ووٹ کاسٹ کرنا چاہیں گے۔ اس بات کا انداذہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں اسی گاؤں میں منعقد ایک سیاسی ریلی میں موجود ہر شخص کا اپنا نقطہ نظر تھا۔

اب جب کہ ہماری خاص قسم کی جمہوریت میں عجیب انداز کے الیکشن ہو رہے ہیں۔ جہاں ایک پارٹی کے امیدواروں نے تو ڈھول باجوں کے ساتھ اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے جبکہ دوسری پارٹی کے امیدواروں کے کاغذات یا تو راستے میں چھین لیے گئے یا پھر ملے ہی نہیں۔ ایک جنگ کا اکھاڑا ہے۔ جس میں ایک طرف کے امیدوار بڑی بڑی بھڑکیں لگا رہے ہیں اور دوسری جانب کے امیدوار قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ دنیا بھر میں پولنگ کے جدید طریقہ کار کے باوجود نہ تو انتخابات کے لیے آن لائن کاغذات جمع کرائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ووٹنگ آن لائن کرائی جا سکتی ہے۔ ایسا شاید بلکہ یقیناً اس لیے ہے کہ من پسند نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

اس سارے کھیل میں عوام 2 حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں اور تاریخی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس تقسیم کے نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ عوام کو یقین ہی نہیں کہ 8 فروری کو الیکشن ہوں گے، اور اگر ہو بھی گئے تو ان کی شفافیت مشکوک ہو گی۔ خدا کرے کہ الیکشن خیر سے ہوں اور اس ملک سے کب کے روٹھے سیاسی استحکام کی شکل کم از کم ایک بار تو دیکھنے کو ملے۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp