13 جنوری کو انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم ہو گئی۔
اب پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات سے 2 روز قبل یعنی 5 فروری کو بین الجماعتی یا انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے تو کیا ان انتخابات سے پی ٹی آئی کو کوئی فائدہ مل پائے گا؟ یہ جاننے کے لیے وی نیوز نے آئینی و قانونی ماہرین سے بات کی ہے۔
سینیئر قانون دان اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رکن حامد خان
سینیئر قانون دان اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رکن حامد خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا تعلق فائدے نقصان کے ساتھ نہیں بلکہ اب یہ پی ٹی آئی کی ضرورت بن گئی ہے۔
حامد خان نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے تو دسمبر میں ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے انتخابات کو تسلیم کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا اور اب ہمارے لیے انتخابات کرانا لازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آزاد حیثیت میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی امید تو نہیں ہے لیکن ہمارے نظام میں لوٹوں کا وجود ہے اور الیکشن کمیشن نے ہمارا انتخابی نشان واپس لے کر اس چیز کو اور آسان کر دیا ہے اور جان بوجھ کر یہ راستہ کھولا گیا ہے تاکہ ہم مشکل میں پڑیں۔
مخصوص نشستوں کے بارے میں حامد خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ جماعت ہے اور انتخابی نتائج کے بعد مخصوص نشستوں کے لیے اپلائی کر سکتی ہے اگرچہ مخصوص نشستوں کے لیے نامزدگیوں اور درخواستوں کا وقت گزر گیا ہے لیکن یہ ایک نئی صورتحال ہو گی اور ہم انتخابی نتائج کے بعد مخصوص نشستوں کے لیے درخواست دیں گے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضیٰ
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضیٰ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف بطور جماعت اپنا وجود تو رکھتی ہے لیکن انتخابی نشان کی الاٹمنٹ یا تفویض کا مرحلہ اب گزر چکا ہے اب اگر وہ انٹرا پارٹی انتخابات کروا کے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رپورٹ جمع بھی کروا دیتے ہیں تو موجودہ انتخابات کے لیے انہیں انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا جاسکتا ۔
جب خامران مرتضیٰ سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان تحریک انصاف 5 فروری کو انتخابات کروا کے سپریم کورٹ میں عام انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست دے سکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرتی ہے وہ پورے ملک کے لیے ایک نظیر بن جاتا ہے کیوں کہ آج اگر پی ٹی آئی کی وجہ سے انتخابات ملتوی کیے جائیں تو کل کو پاکستان مسلم لیگ ن، جمیعت علمائے اسلام یا پیپلز پارٹی بھی اس طرح کی درخواستیں دائر کر سکتیں ہیں اور پھر ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا تو اس بنیاد پر الیکشن آگے نہیں جا سکتے۔
کیا انتخابات کروا کر پاکستان تحریک انصاف مخصوص نشستوں کے لیے اپلائی کر سکتی ہے، اس سوال کے جواب میں کامران مرتضیٰ نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر درخواستوں کے لیے آخری تاریخ گزر چکی ہے اور اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے امیدوار پہلے سے نامزد کرنا ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو نہیں مل سکتا۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی قیادت اس وقت وکیلوں کے ہاتھ میں ہے، میں خود چونکہ ایک وکیل ہوں اس لیے جانتا ہوں کہ وکیل کبھی ایک بات پر متفق نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی جماعت بہت سارے لیڈروں کے ساتھ نہیں چل سکتی اور اس وقت اس جماعت کے پاس کوئی سمت نہیں ہے اس لیے انہوں نے 5 فروری کو انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی رجسٹریشن ختم نہیں ہوئی اور بطور جماعت وہ اب بھی اپنا وجود رکھتی ہے اور عام انتخابات کے بعد بطور پارلیمانی جماعت کے پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل کر سکتی ہے۔
اکرام چوہدری کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی امیدواروں سے بیان حلفی لیا جا سکتا ہے کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی کے ساتھ ہے اس لیے انہیں اس جماعت کا حصہ سمجھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی امیدوار اگرچہ آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں لیکن ان کے کاغذات نامزدگی پر دیکھا جائے تو ان کو پارٹی نے ہی نامزد کیا ہے اس لیے انتخابات کے بعد اگر وہ کسی اور جماعت میں شامل ہوتے ہیں تو وہ پارٹی پلیٹ فارم کے غلط استعمال کے مترادف ہوگا تاہم انتخابی نشان چھن جانے کی وجہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ہے۔