2018کے کنگ میکر جنرل فیض حمید اپنے حلقے سے پی ٹی آئی کو جتوا سکیں گے؟

جمعہ 2 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزارت عظمٰی کے اُمیدوار میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے گزشتہ برسوں میں تواتر سے جن غیر سیاسی شخصیات پر سیاسی مداخلت کا الزام لگایا اس میں جنرل (ر) فیض حمید سرفہرست ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے مخالفین اور بلخصوص ن لیگ کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ بطور ڈی جی سی میجر جنرل فیض حمید نے 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔

2018 انتخابات، سینیٹ انتخابات اور شریف خاندان کے خلاف عدالتی فیصلوں پر پچھلے برسوں میں بہت بار جنرل(ر) فیض حمید کی جانب انگلیاں اٹھائی گئیں۔

یہ بات بھی زدِ عام ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف 2021 میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں بھی جنرل فیص حمید کا ہاتھ ہے کیوں کہ جنرل(ر) فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے تبادلے پر عمران خان سے سخت نالاں تھے ۔

یاد رہے کہ سال 2017 میں تحریک لبیک  کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ملک کے داخلی اور خارجی منظر نامے پر نمودار ہونے والے جنرل(ر) فیض حمید  کو عمران خان دور حکومت میں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے بعد ملک کا اگلا آرمی چیف سمجھا جاتا تھا۔

تاہم اپریل 2022 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ نومبر 2022 میں جنرل سید عاصم منیر کی آرمی چیف کے عہدے پر تعیناتی کے اعلان کے بعد انہوں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا اور یوں وہ بظاہر ملک کے داخلی منظر نامے سے پس پردہ چلے گئے۔

جس دوران جنرل(ر) فیض حمید خفیہ ایجنسی کے سربراہ رہے تو اس تمام وقت میں حکومتی معاملات میں ان کا خاصا اثر و رسوخ رہا۔

وی نیوز کو ایک انٹرویو میں پاکستان تحریک انصاف کا حصہ رہنے والے ندیم افضل چن نے کہا تھا کہ بطور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل(ر) فیض حمید حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کا حصہ تھے۔

ان کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر چکوال میں منعقدہ ایک تقریب میں انہیں پاکستان تحریک انصاف کے ایک مقامی عہدیدار نے ان کے دوران سروس علاقے میں ترقیاتی کام کرانے پر شکریہ ادا کیا اور انہیں باقاعدہ عملی سیاست میں شمولیت اختیار کرنے کی دعوت بھی دی۔ جس کا انہوں نے شکریہ ادا کیا تاہم وہ سیاسی منظرنامے پر دوبارہ ظاہر نہیں ہوئے۔

انتخابات 2024 سے قبل سوشل میڈیا پر چند تصاویر میں چکوال کے حلقہ این اے 58 سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اُمیدوار ایاز امیر کی انتخابی مہم میں اب فیض حمید کے بھائی نجف حمید کی تصاویر سامنے آئی ہیں۔

 اس تصویر کے منظر عام پر آنے کے بعد ن لیگ کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ جنرل (ر) فیض حمید ریٹائرمنٹ کے 2 سال پورے ہونے سے قبل ہی سیاسی میدان میں دوبارہ سرگرم ہو گئے ہیں۔

 اگرچہ اس حوالے سے کوئی براہ راست شواہد تو موجود نہیں ہیں کہ وہ موجودہ انتخابات میں کسی سیاسی جماعت یا  امیدوار کی مہم میں شریک ہیں تاہم مقامی سطح پر متحرک سیاسی خاندان سے تعلق کے سبب شاید ان کی مکمل طور پر سیاسی لا تعلقی ممکن نہ ہو۔

چکوال کی سیاست

خطہ پوٹھوہار میں عسکری اہمیت کے حامل ضلع چکوال میں قومی اسمبلی کی ایک  اور صوبائی اسمبلی کی 2 نشستیں ہیں۔  تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی موجودہ حلقہ بندیوں میں چکوال کے کچھ علاقے  ضلع تلہ گنگ کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں بھی شامل کیے گئے ہیں۔

یوں ضلع  چکوال اور  ضلع تلہ گنگ میں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 58 اور59 شامل ہیں۔ البتہ حلقہ این اے 59 میں ضلع تلہ گنگ اور اس کی تحصیل لاوہ کے علاوہ چکوال کا کچھ ہی حصہ  شامل ہے۔

اسی طرح  صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 20 اور پی پی 21 ضلع چکوال، جبکہ پی پی 22 میں تلہ گنگ کے علاوہ چکوال اور کلرکہار کے کچھ حصے بھی شامل ہیں۔ جبکہ حلقہ پی پی 23 تحصیل تلہ گنگ  اور لاوہ پر مشتمل ہے۔

روزنامہ ڈان سے منسلک صحافی نبیل ڈھکو کے مطابق ضلع چکوال کے کچھ علاقوں کی تلہ گنگ کے حلقوں میں شمولیت کی بنیادی وجہ ضلع تلہ گنگ کی آبادی کم ہونا ہے۔ چونکہ حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کو آبادی  کی ایک خاص حد دررکار تھی اس لیے انہوں نے ضلع چکوال کے کچھ علاقے تلہ گنگ کے حلقوں میں شامل کیے۔

 جنرل (ر) فیض کے خاندان نے ٹکٹ کیوں نہیں لیا؟

صحافی فیصل کلیم کے مطابق یہ حلقہ رقبے کے لحاظ سے خاصا بڑا ہے اور جنرل(ر) فیض حمید کے خاندان کا اگرچہ ایک حد تک وہاں اثرو رسوخ موجود ہے لیکن وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ موجودہ حالات میں نشست جیت سکتے۔

نبیل ڈھکو کے بقول جنرل (ر) فیض کے بھائی نجف حمید تو تاحال سرکاری ملازم(نائب تحصیلدار)  ہیں جنہیں فروری 2023 میں معطل کیا گیا تھا، تاہم نوکری سے برخاست نہیں کیا گیا تھا۔

اس لیے بطور سرکاری ملازم تو وہ حصہ لینے سے رہے جب کہ جنرل(ر) فیض کی ریٹائرمنٹ کو بھی فی الحال 2 برس پورے نہیں ہوئے اور وہ زیرعتاب بھی ہیں۔ اس لیے ان کے  خاندان کے لیے ٹکٹ لینا یا ٹکٹ دیا جانا مشکل تھا۔

فیصل کلیم کے بقول اگر انہیں اپنے خاندان کے لیے ہی ٹکٹ لینا ہوتا تو 2018 کے انتخابات میں یہ بہت آسان تھا۔ لیکن چکوال کے اس وسیع و عریض حلقے پر  زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے انہوں نے اس وقت بھی سابقہ ن لیگی ایم پی اے ذوالفقار دُلہ کو پاکستان تحریک انصاف میں لا کر قومی اسمبلی کا اُمیدوار بنانا مناسب سمجھا تھا۔ ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ انتخابات میں ذوالفقار دُلہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے اُمیدوار ہیں۔

کیا تحریک انصاف کے اُمیدوار کو جنرل (ر) فیض حمید کی حمایت حاصل ہے؟

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے چکوال کے تقریباً تمام ہی صحافیوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان تحریک انصاف کے اُمیدوار ایاز امیر کو جنرل(ر) فیض حمیدکے خاندان کی بھرپور حمایت حاصل ہے جسے ان کے گاؤں کی نسبت سے لطفیال گروپ بھی کہا جاتا ہے۔

تاہم یہ الگ بات ہے کہ جنرل (ر) فیض موجودہ الیکشن مہم میں شریک نہیں ہیں اور نہ ہی کھل کر سیاسی میدان میں  متحرک ہیں۔ اس حوالے سے ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انتخابی مہم کے آغاز سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اُمیدوار ایاز امیر جنرل فیض سے ملاقاتیں بھی کر چکے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جب پارٹی کی طرف سے  ٹکٹ کے لیے ایاز امیر کا نام فائنل ہوا تو انہوں نے راولپنڈی میں جنرل (ر)فیض حمید، ان کے بھائی نجف حمید، پاکستان تحریک انصاف چکوال کے صدر علی ناصر بھٹی اور حاجی گلستان سے بھی ملاقات کی تھی۔

اس حوالے سے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فیض حمید نے اپنے ماموں زاد چوہدری زمرد کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ کی بھی کوشش کی تھی، تاہم کسی تنازعے سے دور اور حلقے کی سطح پر کمزور سیاسی پوزیشن کے سبب انہوں نے یہ نام واپس لے لیا تھا۔

ضلع چکوال میں کس کا پلڑا بھاری ہے؟

چکوال کے صحافی نبیل ڈھکو کہتے ہیں کہ انتخابی مہم میں پاکستان تحریک انصاف کے ایاز امیر دوسری جماعتوں سے آگے ہیں جس کی تائید عدیل سرفراز سمیت وی نیوز سے بات کرنے والے تمام ہی صحافیوں نے کی۔

عدیل سرفراز کے بقول چکوال ن لیگ کا گڑھ رہا ہے اور موجودہ امیدواران میں بھی ن لیگ کے میجر(ر) طاہر اقبال کو سبقت حاصل تھی۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف کا موجودہ بیانیہ پاپولر ہونے کے سبب انتخابی مہم میں ایاز امیر انہیں ٹکر دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ ایاز امیر کو بہت سے ایسے لوگ بھی سپورٹ کر رہے ہیں جو پہلے ن لیگ کی حمایت کیا کرتے تھے، اس لیے ان کے خیال میں 8 فروری کو کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

نبیل ڈھکو کے مطابق ایاز امیر کا اپنا ووٹ بینک تو کم تھا لیکن عمران خان کا بیانیہ اور اس پر حلقے میں ان کی دھواں دار انتخابی مہم نے انہیں برتری دلا دی ہے۔  وہ کہتے ہیں کہ شاید ہی باقی ملک میں پاکستان تحریک انصاف کے کسی حمایت یافتہ اُمیدوار کو اتنی آزادی سے مہم چلانے کی اجازت ہو جتنی ایاز امیر کو میسر ہے جس کی وجہ ان کا صحافتی پس منظر ہےاور ان کی انتخابی مہم ہی کے سبب پی پی 20 اور 21 کے صوبائی امیدواروں کے لیے بھی حالات بہتر ہوئے ہیں۔

لطفیال گروپ کی سپورٹ پاکستان تحریک انصاف کے اُمیدواران کو جتوا سکتی ہے؟

چکوال کے نبیل ڈھکو نے وی نیوز کو بتایا کہ دوران سروس جنرل(ر) فیض حمید نے اپنے علاقے (شمالی) چکوال میں بہت سے ترقیاتی کام کرائے ہیں۔ ان کے گاؤں لطفیال کے قریب تقریباً 2 درجن دیہات میں بہت سے منصوبے مکمل کیے گئے۔ جن میں سرکاری اسکولز اور اسپتال کی تعمیر شامل ہے۔

ان کے علاقے کو موٹروے سے ملانے کے لیے ایک شاندار سڑک بھی تعمیر کی گئی جس سے علاقے کو خاصی سہولت بھی میسر آئی جب کہ انہوں نے اپنے علاقے میں ڈیڑھ ارب مالیت سے 20 بستروں کا اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتال بھی بنوایا تھا۔

نبیل ڈھکو کے بقول جس وقت یہ تعمیراتی منصوبے بنائے جا رہے تھے اس وقت جنرل(ر) فیض کے بھائی نجف حمید نائب تحصیلدار بھی نہیں بنے تھے، لیکن ان منصوبوں کا افتتاح وہی کیا کرتے تھے۔ ان کاموں کے سبب ان کا خاندان (لطفیال گروپ) اپنے علاقے میں تو اثر و رسوخ رکھتا ہی ہے لیکن اگر انتخابات سے قبل بڑے پیمانے پر کوئی دھاندلی نہ ہوئی تو سرپرائز بھی بعید از قیاس نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp