لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی کا پیمراء کاحکم نامہ معطل کر دیا ہے۔عدالت نے پیمراء کو نوٹس جاری کرتے ہوئے درخواست پر فل بنچ بنانے کی سفارش کر دی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا نے محفوظ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کی تقاریر کی نشریات پر پابندی کیسے لگائی جاسکتی ہے۔ چئیرمین پیمرا کو کہیں آئندہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے عمران خان کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی جو عدالت نے رد کر دی۔ عمران خان کے وکیل بیرسٹر احمد پنسوتا اور اشتیاق اے خان نے دلائل دئیے۔
ان کا کہنا تھا عمران خان کی تقاریر پر پابندی آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔آئین پاکستان شہریوں کو آزادی اظہار کی اجازت دیتا ہے۔ پیمراء کی جانب سے پابندی کا نوٹی فیکیشن غیر قانونی طور پر جاری کیا گیا۔
پیمراء کے تیرہ میں سے صرف تین ممبران نے پابندی کا نوٹی فیکیشن جاری کیا۔ پیمراء قانون کے تحت پابندی کے لیے کم از کم پانچ ممبران کی منظوری قانونی تقاضا ہے۔ استدعا ہے کہ عدالت پیمراء کی جانب سے عمران خان کی تقاریر کی نشریات پر پابندی کا نوٹی فیکیشن کالعدم قرار دے۔
عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کی تقاریر کی نشریات پر پابندی کا پیمراء کا حکم نامہ معطل کر دیا۔ عدالت نے پیمراء کو 13 مارچ کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے درخواست پر فل بنچ بنانے کی سفارش کی ہے۔
عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کیا تھا؟
عمران خان نے پانچ مارچ کو زمان پارک لاہور سے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کسی کا نام لیے بغیر ’لوگوں کے کپڑے اتار کر ان کی ویڈیوز‘ بنانے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
پیمرا نوٹی فیکیشن میں کیا کہا گیا تھا؟
پیمرا کی جانب سے 5 مارچ کو جاری کئے گئے نوٹی فیکیشن کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی تقاریر اور بیانات میں مسلسل ریاستی اداروں پر بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیزی پھیلا رہے ہیں جو امن و امان اور کے لیے خطرہ ہے۔
پیمرا کی جانب سے ٹی وی چینلز کو جاری نوٹی فیکیشن میں کہا گیا تھا کہ پابندی کا اطلاق عمران خان کی لائیو اور ریکارڈ کی گئی دونوں طرح کی تقاریر اور بیانات پر ہوگا۔
پیمرا نے ٹی وی چینلز کو کہا تھا ’وہ یہ یقینی بنائیں کہ کوئی بھی شخص ان کا پلیٹ فارم ’ہتک آمیز‘ بیان بازی کے لیے استعمال نہ کرے جو ریاستی اداروں کے خلاف ہو یا جس سے ملک میں نفرت پھیلے یا امن و امان کی صورتحال کو نقصان پہنچے‘۔
یاد رہے کہ نومبر 2022 میں بھی پیمرا نے عمران خان کی لائیو یا ریکارڈ کی گئی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگائی تھی جو ایک گھنٹے بعد وزیراعظم شہبازشریف کے حکم پر واپس لے لی گئی تھی۔