آبادی کے تناسب سے صوبائی دارالحکومت پشاور کی صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستیں زیادہ ہونے سے 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی نظریں پشاور پر ٹکی ہیں۔ ووٹرز کو مائل کرنے کے لیے گلی محلوں کو انتخابی بینرز اور پوسٹرز سے سجا دیا گیا ہے اور انتخابی مہم بھی زوروشور سے جاری ہے۔
ساڑھے 47 لاکھ نفوس، 5 قومی و 13 صوبائی نشستیں
حالیہ مردم شماری کے مطابق پشاور کی آبادی 47 لاکھ 58 ہزار 762 ہے جس کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیاں کی ہیں۔ اس کے بعد قومی اسمبلی کی 5 نشستیں تو برقرار رہیں لیکن صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ایک کی کمی کے بعد 14 میں سے 13 رہ گئیں۔ پشاور کی نشستوں پر سیاسی جماعتوں کی نظریں مرکوز ہیں کیوںکہ اس کا حکومت سازی میں اہم کردار ہوتا ہے۔
پشاور کے اہم حلقوں میں کس کا پلہ بھاری ہے؟
نئی مردم شماری کے بعد پشاور میں قومی اسمبلی کے حلقوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور 5 نشستوں کو برقرار رکھا گیا ہے جو این اے 28 سے لے کر این اے 32 تک ہیں۔ جبکہ صوبائی اسمبلی کے 13 حلقے پی کے 72 سے لے کر پی کے 84 تک ہیں۔ پشاور کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے کچھ حلقوں پر سخت مقابلہ متوقع ہے اور جیت کے لیے سیاسی جماعتیں و امیدوار دن رات مصروف ہیں۔
این اے 28
پشاور کے حلقہ این اے 28 سے مجموعی طور پر 15 امیدوار میدان میں ہیں اور حلقے میں سخت اور دلچسپ مقابلہ متوقع ہے۔ سیاسی تجزیہ کار و صحافی انور زیب کے مطابق این اے 28 میں جے یو آئی، پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔ انہوں نے تجزیہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس حلقے میں تحریک انصاف کے سابق باغی رکن قومی اسمبلی نور عالم خان مضبوط امیدوار تصور کیے جا رہے ہیں۔ بتایا کہ نورعالم خان پی پی پی سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اور 2018 میں کامیاب ہوئے تھے جو اب پی ٹی آئی کو چھوڑ کر جے یو آئی میں شمولیت کے بعد اسی حلقے سے امیدوار ہیں۔ ‘نور عالم خان سرگرم سیاست دان ہیں۔ حلقے میں ترقیاتی کاموں کے علاوہ غم و خوشی میں بھی حاضر رہتے ہیں۔ جو پختون معاشرے میں اہم ہے۔‘
مزید پڑھیں
انورزیب نے مزید بتایا کہ اگر بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو دیکھا جائے کہ اسی حلقے میں جے یو آئی کا اپنا ووٹ بینک بھی ہے۔ جس کا نورعالم خان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
انور زیب نے بتایا کہ نور عالم کے علاوہ پی پی پی اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار بھی مضبوط ہیں۔ بتایا کہ پی پی پی کے امیدوار و سابق اسپیکرکرامت اللہ نے علاقے میں اہم کام کیے ہیں اور گیس کے مسئلے کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ ساجد نواز سابق ایم این اے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ہیں، جس سے ان کوعمران خان کا ووٹ بھی پڑے گا۔
صحافی کاشان اعوان کے مطابق این اے 27 میں جماعت اسلامی کا امیدوار بھی مضبوط ہے، کیونکہ نواحی حلقوں میں مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک ہے۔
این اے 32
این اے 32 جو پہلے این اے ون ہوتا تھا پشاور کا اہم اور تاریخی حلقہ ہے۔ جو شہری علاقوں پر مشتمل ہے، اور اسی حلقے میں بے نظیر بھٹو، عمران خان سمیت دیگر اہم شخصیات نے الیکشن میں حصہ لیا ہے۔ صحافی کاشان اعوان کے مطابق این اے 32 میں عوامی نیشنل پارٹی کا پلہ بھاری ہے جس کی وجہ امیدوار حاجی غلام احمد بلور ہیں اور وہ ایک عرصے سے اسی حلقے سے الیکشن لڑتے آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پشاور شہر میں عمران خان کا ووٹ بینک کافی ہے، لیکن بلے کا نشان نہ ہونے سے دیگر جماعتوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
کاشان اعوان نے بتایا کہ این اے 32 سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار سابق ایم پی اے آصف خان ہیں۔ جو کچھ زیادہ مقبول نہیں ہیں۔ جبکہ ٹکٹوں کی تقسیم پر کچھ رہنما ناراض بھی ہیں۔
انور زیب کے مطابق ناراض ووٹرز کا فائدہ اے این پی کے غلام احمد بلورکو ہو سکتا ہے، جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بھی دن رات حلقے میں موجود رہتے ہیں۔ بتایا کہ اسی حلقے میں شوکت علی، پرویز خٹک کی جماعت سے امیدوار ہیں جو اس سے پہلے تحریک انصاف کے رکن تھے۔ جبکہ اسی حلقے میں جے یو آئی، جے آئی اور دیگر جماعتوں کا بھی ووٹ بینک ہے۔
این اے 29, 30 اور 31
این اے 29,30 اور 31 میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین مقابلہ ہوگا، انور زیب کے مطابق ان حلقوں میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار مضبوط پوزیشن میں نظر آتے ہیں۔ انور زیب کے مطابق این اے 30 میں پی ٹی آئی کے سابق رکن ناصر خان موسیٰ زئی جے یو آئی سے امیدوار ہیں۔ جبکہ اسی حلقے میں جے یو آئی کا اپنا ووٹ بینک بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ تحریک انصاف کی حمایت یافتہ خاتون امیدوار شاندانہ گلزار ہیں۔ جو 9 مئی کے بعد زیادہ ترروپوش رہی ہیں۔
این اے 29 میں کاشان اعوان کے مطابق تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوارارباب عامر ایوب مضبوط امیدوار ہیں۔ جو پہلے بھی اسی حلقے سے منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی حلقے سے ن لیگ سے ثوبیہ شاہد کو امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔
انور زیب نے بتایا کہ پشاور شہر میں ن لیگ کے کوئی مضبوط امیدوار نہیں ہیں، جو سخت مقابلہ کر سکیں۔ قومی اسمبلی کے 2 حلقوں سے ایک ہی خاتون کو نامزد کیا گیا ہے۔
این اے 31 میں تحریک انصاف کے حمایتی امیدوار اور سابق ایم این اے ارباب شیر علی کو مضبوط تصور کیا جارہا ہے۔ انور زیب کے مطابق ارباب شیر علی سخت حالات کے باوجود بھی بھر پور انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور کافی مقبول بھی ہیں۔
جبکہ اسی حلقے سے پی پی پی کے ارباب عالمگیر بھی میدان میں ہیں۔
صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر کس کا پلہ بھاری؟
صوبائی دارالحکومت پشاور میں تمام سیاسی جماعتوں کے ووٹرز ہیں اور سیاسی جماعتوں کے امیدوار دن رات مہم میں مصروف ہیں۔ صحافی انور زیب نے بتایا کہ شہری علاقوں کا عمران خان کا ووٹ زیادہ ہے۔ لیکن بلے کا نشان نہ ہونے اور عمران خان اور پارٹی کے نام پر امیدوار زیادہ ہونے سے تقسیم کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پشاور کے 5 قومی و 13 صوبائی حلقوں پر 700 سے زائد امیدوار میدان میں ہیں۔ بتایا کہ انتخابی نشان نہ ہونے سے پی ٹی آئی ووٹ بینک تقسیم ہونے کا خدشہ ہے، جس کا فائدہ دیگر جماعتوں کو ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پشاور میں سب سے منظم مہم عوامی نیشنل پارٹی چلا رہی ہے اور ان کے امیدوار مسلسل حلقے میں ہوتے ہیں۔ بتایا کہ ثمر ہارون بلور پی کے 83 سے مضبوط امیدوار ہیں۔
کاشان اعوان نے بتایا کہ سابق صوبائی وزیر تیمور جھگڑا، کامران بنگش، ارباب جانداد اور دیگر بھی مہم چلا رہے ہیں اور مضبوط امیدوار ہیں۔ بتایا کہ جماعت اسلامی، جے یوآئی، اے این پی کے علاوہ کچھ حلقوں میں ٹی ایل پی کے امیدوار بھی سخت مقابلہ کر سکتے ہیں۔