سویڈن کے شہر گوتھن برگ سے کھدائی کے بعد ملنے والی ’رال‘ (مادہ ) کے نمونوں پر دانتوں کے نشانات پائے گئے ہیں جن کے بارے میں محققین کا دعویٰ ہے کہ یہ 9,700 سال پرانے ہیں اور یہ کسی نو عمر بچے کے دانتوں کے نشانات ہیں۔ ان سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اسے انفیکشن یا درد کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
سائنسی میگزین میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملنے والی ’رال‘ ( پودے کی چھال سے نکلنے والا مادہ جسے گوند بھی کہا جاتا ہے ) ہڈیوں اور دیگر اشیا سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سے 9,700 سال قبل اسکینڈینیویا کے مغربی ساحل پر لوگوں کا ایک گروپ مچھلی کا شکار اور وسائل جمع کرنے کا کام کرتا رہا ہے۔
یہاں اس دوران کچھ نوجوانوں نے ٹراؤٹ، ہرن اور ہیزل نٹس کھانے کے بعد گوند پیدا کرنے کے لیے پودے کی چھال سے نکلنے والی رال چبایا۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک نوعمر کو مسوڑھوں کا شدید انفیکشن ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے اسے ہرن کے گوشت کو چبانا مشکل ہو گیا تھا اس لیے وہ یہ انفیکشن دور کرنے کے لیے پودے کی چھال سے نکلنے والی رال کو بطور دوا استعمال کر کے پھینکتا رہا۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ بات اس وقت معلوم ہوئی جب یوروپیوں میں کاشتکاری شروع کرنے سے پہلے میسو لیتھک دور کے اس اسنیپ شاٹ یعنی چبائے گئے اس ’رال‘ سے ملنے والے ڈی این اے کا تجزیہ کیا گیا۔
سویڈن کے شہر گوتھن برگ کے شمال میں واقع ہوزبی کلیف کی کھدائی 1990 کی دہائی کے اوائل میں کی گئی تھی جس میں 1849 کی فلنٹ نوادرات اور 115 ’رال‘ کے ٹکڑے دریافت ہوئے تھے۔
’رال‘کے جن نمونوں کا تجزیہ کیا گیا ان پر انسانی دانتوں کے نشانات تھے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اُس زمانے کے نوعمر لوگوں نے انہیں چبایا تھا۔ میسولیتھک جگہ سے دانتوں یا انگلیوں کے نشانات کے ساتھ ماسٹکیٹڈ گلٹیاں بھی برآمد ہوئی ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ ’ رال ‘ برچ کے پودے کی چھال کے گوند سے بنایا گیا تھا، جسے مڈل پیلیولیتھک کے بعد سے پتھر کے زمانے کی ٹیکنالوجی کے طور پر کسی چیز کے جوڑنے یا چپکانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ تاہم روایتی معاشروں میں اسے تفریحی یا میڈیسن کے طور پر بھی جبایا جاتا تھا۔
محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کونیفرس درخت کی رال، قدرتی بیٹومین، اور پودوں کے تنے سے نکلنے والی گوند (گم ) اور دیگر مادے عالمی سطح پر اسی طرح کے طریقوں سے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ ملنے والی ’ رال ‘ سے حاصل کیا گیا ڈی این اے کا آدھا حصہ انسانی ہے، جو اسکینڈینیویا کے کچھ قدیم ترین انسانی جینوم کی نمائندگی کرتا ہے، جس کا ایک انوکھا نسب میسولیتھک کے شکاریوں میں عام ہے جو قدیم زمانے میں کبھی یہاں رہا کرتے تھے۔
ملنے والی اس ’رال‘ میں مرد اور عورت دونوں کے انسانی ڈی این اے بھی شامل ہیں ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ نوعمربچوں نے کوئی شے بنانے کے لیے اس گوند کو چُبایا تھا۔ محققین کے مطابق ڈی این اے کا دوسرا نصف حصہ غیر انسانی ہے، جس پر بنیادی طور پر بیکٹیریا اور پھپھوندی جمی ہوئی ہے جو 9،700 سال پہلے اس ’رال‘ پر موجود ہیں۔