پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے عدت میں نکاح کے مقدمے کا فیصلہ تو سامنے آ گیا ہے، اس مقدمے کا آغاز کیسے اور کیوں ہوا؟ عوام آج بھی جاننا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیں
وی نیوز کی رپورٹ کے مطابق بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے 342کے بیان میں کہا ہے کہ ان کے سابق شوہر خاور مانیکا نے انہیں اپریل 2017 میں طلاقِ ثلاثہ دے دی تھیں اور اس بنیاد پر ان کے خلاف عدت میں نکاح کا مقدمہ نہیں بنتا۔
عدت میں نکاح کے مقدمے کی سماعت 13 گھنٹے جاری رہی
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیراعظم اور بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف عدت میں نکاح کے مقدمے کا فیصلہ جمعہ کو 13 گھنٹے کی سماعت کے بعد محفوظ کر لیا تھا جسے ہفتہ کے روز دن سہ پہر کے بعد سنایا، اس سے قبل عدالت نے اعلان کیا تھا کہ فیصلہ دن ایک بجے سنایا جائے گا۔
جمعہ کو رات گئے تک مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں جاری رہی، یہ سماعت دن 9 بجے سے رات 11 بجے تک جاری رہی اور اس دوران عمران خان اور بشریٰ بی بی نے دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ کروایا۔ انہیں 13 صفحات پر مشتمل سوال نامہ دیا گیا تھا۔
بشریٰ بی بی نے عدالت میں بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ وہ اگست میں اپنی عدت کا عرصہ گزار چکی تھیں اور خاور مانیکا کا 14 نومبر کو طلاق کا دعویٰ سراسر بے بنیاد اور غلط ہے۔ اپریل میں زبانی طلاق کے بعد میں اگست میں اپنی ماں کے گھر منتقل ہو گئی تھی۔
مقدمہ غیر ازدواجی تعلقات نہیں عدت میں نکاح سے متعلق ہے
25 نومبر 2023 کو سول جج قدرت اللہ کی عدالت میں بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے ابتدائی طور پر عدت میں نکاح کے ساتھ بی۔496 یعنی زنا کے الزامات عائد کیے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی اور عمران خان کے درمیان نکاح سے قبل غیر ازدواجی تعلقات قائم رہے ہیں۔
تاہم 16 جنوری کو اسلام آباد کی سول عدالت نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے عمران خان پر جو فرد جرم عائد کی وہ صرف عدت میں نکاح سے متعلق تھی۔
اس سے قبل اسلام آباد کی ایک سول عدالت نے 13 مئی 2023 کو عمران خان کے خلاف دوران عدت نکاح کا مقدمہ علاقائی حدود کی بنیاد پر خارج کر دیا تھا۔
سول جج قدرت اللہ کا کہنا تھا کہ چونکہ نکاح لاہور میں ہوا ہے اس لیے مقدمہ بھی وہیں چلنا چاہیے۔ جس کے جواب میں مدعی محمد حنیف کے وکیل راجہ رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ اگر گولی ایک جگہ چلے اور کسی شخص کی موت دوسری جگہ ہو تو مقدمہ دونوں جگہ چلایا جا سکتا ہے۔تاہم سول عدالت نے مقدمہ خارج کر دیا تھا۔
خاور مانیکا کی درخواست پر کیس کب دائر کیا گیا؟
سیکشن 494/34، B-496 اور دیگر دفعات کے تحت دائر درخواستوں میں خاور مانیکا نے مؤقف اپنایا تھا کہ عمران خان نے پیری مریدی کے بہانے ان کے گھر میں داخل ہو کر ان کا گھر تباہ کیا۔
خاور مانیکا کی جانب سے درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ یکم جنوری 2018 کو ہونے والے نکاح کے بارے میں جب یہ انکشاف ہوا کہ عدت میں کیا گیا ہے تو عمران خان اور بشریٰ بی بی نے فروری 2018 میں مفتی سعید کے ذریعے دوبارہ نکاح کیا جو کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے۔ جس کے لیے انہیں آئین و قانون کے مطابق سزا دی جائے۔
سول عدالت میں جمع کروائے گئے خاور مانیکا کے تحریری بیان کے مطابق بشریٰ بی بی کی بہن مریم نے اسلام آباد میں دھرنے کے دوران بشریٰ کا عمران خان سے تعارف کروایا تھا۔
عمران خان کو ایک مرتبہ زبردستی گھر سے بھی نکالا تھا، خاور مانیکا
ان کے مطابق اس وجہ سے ایک مرتبہ وہ عمران خان کو گھر سے بھی نکال چکے ہیں۔ انہوں نے مزید دعوٰی کیا کہ عمران خان کے قریبی ساتھی اور سابق مشیر زلفی بخاری بھی عمران خان کے ساتھ ان کے گھر آتے رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں الزام عائد کیا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کا ٹیلی فون پر رابطہ رہتا تھا اور فون کی سم بشریٰ بی بی کی دوست فرح گوگی نے فراہم کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس صورت حال سے تنگ آ کر انہوں نے 14 نومبر، 2017 کو اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی تھی۔
خاور مانیکا نے بیان میں کہا کہ وہ پہلے اس معاملے پر نہیں بولے کہ یہ گھر کی بات ہے لیکن باتیں منظر عام پر آنے کے بعد وہ اسے عدالت میں لے جا رہے ہیں۔
گذشتہ برس 11 دسمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابلِ سماعت قرار دیا تھا۔