ہم ووٹ کسے دیں، انکل!

اتوار 4 فروری 2024
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ حبا تھی اور مریم۔ یہ دونوں بچیاں میرے بچوں کی دوست ہیں۔ پڑھی لکھی ہیں اور ہمارے بچوں کی طرح جدید طور طریقوں اور ادب آداب پر یقین رکھتی ہیں۔ میں نے ان سے یہ سوال تو نہیں کیا کہ اس سے پہلے انہوں نے کسے اپنے ووٹ کے قابل سمجھا تھا لیکن ایک بچی کے خاندانی پس منظر اور دوسری کے حلقہ احباب کو جاننے کے باوصف میرا اندازہ ہے کہ انہوں نے اگر ووٹ نہیں بھی دیا تو وہ ضرور اس رجحان سے متاثر رہی ہوں گی جو تھوڑے دن پہلے تک ایک حد تک مقبول رہا ہے اور اسی بنا پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ نوجوانوں کے سیاسی رجحانات کا معاملہ یک طرفہ ہے اور اس سیاسی گروہ کے سوا باقی تمام سیاسی جماعتیں اور طبقات ان کی حمایت سے محروم ہیں۔

ان بچیوں نے مجھ سے جب یہ سوال کیا تو ایک بات تو یہ سمجھ میں آئی کہ ہمارے بچے، اولادیں اور نوجوان محض لکیر کے فقیر نہیں۔ وہ غور و فکر کرتے ہیں اور سیاسی عمل میں اپنی حمایت اور مخالفت کا فیصلہ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ اس معاملے میں اگر وہ الجھن محسوس کریں تو بزرگوں سے بات چیت کرنے اور مشورہ لینے میں بھی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ یہ خوبی روشن مستقبل کی نوید ہے۔

انتخابی عمل کے دوران میں سیاسی سرگرمیوں، اس عمل میں شریک سیاسی جماعتوں کے منشور کے مختلف پہلوؤں سمیت دیگر واقعات عمومی طور پر زیر بحث آیا ہی کرتے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان بحث مباحثہ حتیٰ کہ توتکار بھی ہو جاتی ہے لیکن بچیوں کے اس سوال کے بعد مجھے احساس ہوا کہ انتخاب اور سیاست کے تعلق سے بہت سی باتیں ضرور زیر بحث آتی ہیں لیکن اگر کوئی بات سنجیدگی کے ساتھ زیر بحث نہیں آتی یا کم زیر بحث آتی ہے تو وہ یہی ہے کہ ملک کے معروضی حالات کے تناظر میں ہم ووٹ کسے دیں؟

پاکستان گزشتہ پون صدی کے عرصے میں جن حالات سے گزرا اور خاص طور پر گزشتہ 5 سے 6 برس کے دوران میں اس پر جو کچھ بیت گئی ہے، اس کے تناظر میں یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

تو پھر بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم ووٹ کسے دیں؟ اور یہ فیصلہ کرتے وقت کن امور اور معاملات کو پیش نظر رکھیں؟ کسی بھی سیاسی معاشرے میں سب سے اہم سوال یہی ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں انسانی زندگی کی سیاسی جمہوری تاریخ، تجربات اور قیادت منتخب کرنے کے معیارات کو پیش نظر رکھیں تو چند رہنما اصول سامنے آتے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ یہ اصول تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تمام معاشروں میں ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔

فیصلہ کرتے وقت سب سے اہم اور بنیادی سوال جسے پیش نظر رکھنا چاہیے، وہ ہے کہ ہمارے سماج یا ملک کی ضرورت کیا ہے اور کون اسے پورا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے؟

پاکستان کو ذہن میں رکھ سوال پر غور کریں تو چند مزید پہلو سامنے آتے ہیں لیکن سب سے پہلے بنیادی سوالات۔

1- سیاسی، اقتصادی اور سماجی نقطہ نظر سے پاکستان کی ضروریات کیا ہیں؟

2- بین الاقوامی تعلقات، خاص طور پر خطے کے حالات کا تقاضا کیا ہے؟

کسی بھی سماج خاص طور پر پاکستان میں ووٹ کا حق استعمال کرتے وقت یہ دو بنیادی سوالات جن میں بہت سے دیگر سوالات بھی از خود شامل ہو جاتے ہیں، پہلی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان دو سوالوں کے بعد تیسرا سوال بھی ہمارے ذہن کے دروازے پر دستک دیتا ہے جس کا تعلق پاکستان کے خاص نظریاتی پس منظر سے ہے۔ یہ پس منظر وہی ہے جس کی تفصیل قرارداد مقاصد میں شامل ہے جو آئین کے قابل نفاذ حصے میں شامل ہے۔ یعنی پاکستان اللہ تعالیٰ کی حاکمیت پر یقین رکھتا ہے اور اس تعلق سے پاکستانی سماج کی تشکیل قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہوتی ہے۔ پاکستان کا یہی نظریاتی پہلو ہے جس کی بنیاد پر ملک میں کئی دینی و سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور اسی بنیاد پر وہ پاکستانی عوام کو مخاطب کرتی ہیں اور خود کو ان کے ووٹ کا حق دار بھی قرار دیتی ہیں۔

پاکستان کی اسلامی تحریکوں کے بہت سے مثبت پہلو ہیں اور کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جن پر کچھ سوالات ہمارے یہاں موجود ہیں۔ پاکستان کی اسلامی تحریکوں خاص طور پر جماعت اسلامی کا کردار کئی اعتبار سے غیر معمولی ہے۔ قرارداد مقاصد کی منظوری میں دیگر دینی جماعتوں کے ساتھ اس کا بھی کردار کلیدی ہے۔ خاص طور نظریاتی محاذ پر۔ قرارداد مقاصد کے مخالفین کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ ممکن نہ ہوتا اگر مولانا مودودی کا لٹریچر میسر نہ ہوتا۔ اس محاذ پر دیگر دینی جماعتوں اور بزرگ شخصیات کی جدوجہد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

دینی جماعتوں کی یہ خدمت کبھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی لیکن دو معاملات ایسے ہیں جن میں چند ایک دینی طبقات کو چھوڑ کر ہماری بیشتر دینی جماعتیں توازن نہیں رکھ پائیں۔ ان میں ایک عسکریت پسندی ہے اور دوسرے پہلو کا تعلق پاکستان میں آئین اور جمہوریت کی حکمرانی اور بالادستی کے ساتھ ہے۔ آئین اور جمہوریت کے ساتھ وابستگی کے ضمن میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کا موقف اور کردار جس وضاحت کے ساتھ سامنے آیا ہے، یہ اس کا امتیاز ہے۔ اس معاملے میں جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کے مولانا شاہ اویس نورانی اور پروفیسر ساجد میر کا کردار بھی قابل تحسین ہے۔

اب رہ گیا سیاسی، اقتصادی، سماجی اور بین الاقوامی پہلو۔ سرد جنگ کے زمانے میں ہمارے یہاں دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم ہوئی جو ایک طرح سے اب تک برقرار ہے۔ جدید تقسیم کو سنٹر رائٹ اور سنٹر لیفٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سنٹر رائٹ مذہبی جماعتوں کے برعکس زمینی حقائق کو سمجھ کر پالیسی بناتا ہے لیکن اس کی پالیسی میں اللہ کی حاکمیت اور قرآن وسنت کی روشنی میں قانون سازی کے ضمن میں کوئی تحفظ نہیں پایا جاتا بلکہ وہ اس مقصد کے حصول میں ہمیشہ سنجیدہ رہتا ہے اور اس سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ مسلم لیگ (ن) اس معیار پر پورا اترتی ہے۔

اس نظریاتی ضرورت کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت سیاسی استحکام ہے۔ اس جدوجہد میں سنٹر رائٹ اور سنٹر لیفٹ تقریباً ایک جیسے مخلص ہیں۔ میثاق جمہوریت سے لے کر اب تک ان دونوں مکاتب فکر کے علاوہ دینی طبقات میں سے مولانا فضل الرحمان اور چند ایک دوسرے علما دکھائی دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان طبقات نے اس جدوجہد میں کسی مرحلے پر کوئی غلطی کی ہو یا کبھی کوئی کمزوری دکھائی ہو لیکن مجموعی طور پر سب ہی مخلص ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے اس ضمن اگر کسی نے سب سے کم غلطیاں کی ہیں اور بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں تو ان میں بھی مسلم لیگ (ن) سب سے نمایاں ہے لیکن مولانا فضل الرحمان کی خدمات کو بھی اس ضمن میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

لمحہ موجود میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے جسے گزشتہ کچھ عرصے سے خاص طور پر پی ٹی آئی کے زمانے میں تباہ کر دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی کے کوئی ایک بھی مقابل نہیں جس کی گواہی عالمی معاشی خبروں کے ادارے بلوم برگ نے بھی دی ہے۔ ماضی کی دونوں حکومتوں میں بھی اس کی کارکردگی بہت بہتر رہی لیکن 2013 والی حکومت کی کارکردگی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ (ن) لیگ حکومت میں آئی تو معیشت تباہ حال تھی، آئی ایم ایف میں جانا ضروری تھا۔ یہ حکومت آئی ایم ایف کے پروگرام میں گئی لیکن عوام پر کوئی بوجھ ڈالے بغیر اس حکومت نے 2016 میں آئی ایم ایف کو خدا حافظ بھی کہہ دیا۔ اس کے علاوہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ کر کے لوڈ شیڈنگ ختم کی اور اقتصادی راہداری کے منصوبے شروع کر کے اقتصادی استحکام کی مستقل بنیاد رکھ دی۔ اب بھی صرف یہی جماعت ہے جو ملک کے اس سب سے بڑے چیلنج سے کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہو سکتی ہے۔

اب رہ گیا معاملہ بین الاقوامی تعلقات کا۔ خطے کے ممالک سے تعلقات ہوں یا مسلم دنیا اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کا معاملہ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے زمانے میں ہمارے خارجہ تعلقات بالکل ہی تباہ کر دیے گئے۔ اس سے پہلے کی ایک حکومت کے حالات بھی کچھ ایسے متاثر کن نہیں تھے۔ اس کے مقابلے میں ہمیں میاں نواز شریف کا ویژن بہت واضح دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کے سینیئر اور تجربہ کار لیڈر کی حیثیت سے دنیا بھر میں ان کا احترام کیا جاتا ہے، ان کی بات پر توجہ دی جاتی ہے اور وہ متحارب دنیا کے ساتھ متوازن تعلقات پیدا کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔

یہ ہیں وہ چند بنیادی سوالات جنہیں پیش نظر کر ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ووٹ کسے دیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp