عمران خان کو سیاست میں 25 برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصے میں انہوں نے پے درپے غلطیاں کی ہیں اور وہ اپنی ان غلطیوں سے کچھ بھی سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ویسے تو یہ غلطیاں درجنوں میں ہیں تاہم یہاں ہم چیدہ چیدہ غلطیوں کا نشاندہی ضروری سمجھتے ہیں۔
حضرت کی پہلی غلطی تو یہ تھی کہ انہوں نے شوکت خانم ہسپتال جیسے منصوبے سے اپنی توجہ ہٹا کر سیاسی میدان میں کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ سرطان کے اس بڑے ہسپتال کے قیام کے بعد عمران خان رفاہی و فلاحی کاموں پر اپنی توجہ مرکوز رکھ کر بہت کچھ کرسکتے تھے۔ پاکستان کو ان شعبوں میں کام کرنے والوں کی بہت ضرورت تھی اور ہے، لیکن خان صاحب نے تاریخ میں اچھے نام سے یاد کیے جانے کو ترجیح نہیں دی۔
صحت اور تعلیم ایسے شعبے ہیں جن میں عمران خان بہت کچھ کرسکتے تھے۔ ملک کے ہر ضلع میں ایک بڑے سرطان کے ہسپتال کا بیڑا اٹھا سکتے تھے اور ہر ضلع میں ایک اچھے اور بڑے تعلیمی ادارے کا قیام بھی ان کے لیے ناممکن نہیں تھا کیونکہ کرکٹ سے کمائی نیک نامی ان کے بہت کام آرہی تھی اور ان کے لیے فنڈز جمع کرنا بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا لیکن انہوں نے یہ تمام مواقع ضائع کردیے اور اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہی کی کہ سیاست میں وارد ہوئے۔
خان صاحب کی دوسری بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے سیاست میں آنے کے بعد جمہوری راستے کا انتخاب نہیں کیا اور ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ جس وقت ملک کی بڑی اور مستحکم سیاسی جماعتیں جیسے مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی وغيره آمریت کے خلاف جدوجہد کررہی تھیں اس وقت عمران خان صاحب اس کوشش میں تھے کہ کس طرح انہیں چور دروازے سے اقتدار میں آنے کا موقع مل جائے۔
اس کوشش میں انہوں نے ملک کی سیاسی جماعتوں کے شانہ بشانہ جمہوریت کے لیے کھڑے ہونے اور لڑنے کے بجائے ایسے کام کیے جن سے اسٹیبلشمنٹ میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ گوکہ وہ خود جمہوریت کی باتیں کرتے رہے لیکن کہیں بھی انہوں نے اپنی پارٹی کے اندر یا باہر جمہوری روایات کو ترویج دینے کی کوشش نہیں کی۔
ایک طرف وہ خود دیگر جماعتوں پر غیر جمہوری ہونے کے الزامات لگاتے رہے اور دوسری طرف خود اپنی پارٹی کی کوئی جمہوری تنظیم سازی نہیں کی اور خود اپنی پارٹی کو ایک آمر کی طرح چلاتے رہے اور اب تک چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس غیر جمہوری طرزِِ عمل سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور ان کے جمہوریت کے دعوے دھرے رہ گئے۔ اس طرح ان کی دوسری بڑی غلطی غیر جمہوری راستے کا انتخاب تھا۔
عمران خان کی تیسری بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ شروع سے فوج کے کاندھوں پر سوار ہونے کی کوشش کرتے رہے۔ چاہے وہ جنرل حمید گل ہوں، جنرل شجاع پاشا یا جنرل ظہیر الاسلام یا جنرل فیض حمید۔ وہ ان سب سے یاری اور معاونت کے طلبگار رہے اور ان لوگوں نے عمران خان کو مایوس بھی نہیں کیا گوکہ اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ آج تک فوج کے بل بوتے پر سیاست میں آنے والے لوگ یا تو ناکام رہے یا پھر اسی وقت کامیاب ہوئے جب انہوں نے عوامی اور جمہوری سیاست کی جن میں ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کی مثالیں سامنے ہیں۔ دونوں حضرات اپنے ابتدائی وقت میں فوج کے مرہون منت رہے مگر جلد ہی انہوں نے اپنی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کو اپنا نصب العين بناليا- جس سے تاریخ میں ان کے نام امر ہوگئے اور وہ اب فوج کے حوالے سے نہیں بلکہ خود اپنی جمہوری جدوجہد کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
عمران خان کی چوتھی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے نعرے تو شفاف سیاست کے لگائے اور ملک کو ایک نئی صاف ستھری قیادت دینے کے وعدے کیے لیکن پھر اپنے آقاؤں کے اشارے پر تمام جماعتوں کے بچے کچھے اور مسترد شدہ عناصر کو اپنی جماعت میں شامل کرلیا۔ ان میں زیادہ تر سیاستدانوں پر مختلف ادوار میں کرپشن کے مقدمے رہے تھے اور یہ لوگ کسی طرح بھی شفاف یا صادق و امین کہلانے کے مستحق نہیں تھے لیکن عمران خان کے لیے یہ بات اہم نہیں تھی کہ ان کی معاشرے میں ساکھ کیا ہے۔
چاہے وہ شاہ محمود قریشی ہوں یا اعظم سواتی، شیخ رشید ہوں یا فیصل واؤڈا، یہ سب کسی طرح بھی عمران خان کے لیے نیک نامی کا باعث نہیں تھے لیکن خان صاحب نے ان باتوں کی پروا نہیں کی کہ ان کے نعرے شفافیت اور ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے ہیں لیکن ان کے اردگرد جو لوگ جمع کیے گئے ہیں وہ سب داغدار ہیں اور اسی روایتی سیاست کے امین ہیں جس سیاست کے خلاف عمران خان بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔
عمران خان کی پانچویں بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے مسلسل احتجاجی سیاست کو ہی اپنا مسلک بنائے رکھا۔ خاص طور پر 2010ء کے بعد وہ مسلسل ایک کے بعد ایک دھرنا، جلسے جلوس اور دھمکی آمیز سیاست کرتے رہے۔ ان کے پاس عوام کی بڑی تعداد تھی اور خاص طور پر نوجوان ان کے لیے جان چھڑکتے تھے لیکن خان صاحب نے ان جوانوں کی تربیت کرنے کے بجائے ان کے ذہنوں میں مخالفین کے خلاف نفرت کا زہر گھول گھول دیا ہے اور اس سیاست نے جمہوریت کے رگ وپے میں ایک بیماری کی شکل اختیار کرلی ہے جس کا تدارک اب کرنا مشکل نظر آتا ہے۔
الزامات کی سیاست، دھمکی کا انداز، بدتمیزی کا طوفان اور ہر مخالف کو دشمن گرداننا اس سیاست کا شیوہ بن گیا اور سیاست میں جو تھوڑی بہت جمہوریت اور رواداری کی رمق تھی وہ بھی جاتی رہی۔ یہی طرزِ عمل ان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی رہا اور بے رخی کے ساتھ اس میں مزید اضافہ ہوتا گیا ۔
عمران خان کی یہ تاریخی غلطیاں حتمی نہیں ہیں اور ان میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے مثلاً ملک کو معاشی نقصان پہنچانا، آئین کا تیا پانچہ کرنے کی کوشش کرنا، سازشی نظریات گھڑنا،عدلیہ سے لے کر فوج اور الیکشن کمیشن سب کو متنازع بنانا۔ لیکن یہ سب غلطیاں انہی اصل 5 تاریخی غلطیوں کا شاخسانہ ہیں اور اب لگتا ہے عمران خان انہی غلطیوں کے ساتھ اپنی باقی عمر گزاریں گے۔