ملک بھر میں 8 فروری کو عام انتخابات کا انعقاد متوقع ہے، سیاسی جماعتوں نے زور و شور سے ملک گیر انتخابی مہم جاری رکھی ہوئی ہے، آئے روز مختلف شہروں میں جماعتوں کے سربراہ جلسوں کا انعقاد کر رہے ہیں اور ایک دن میں ایک سے زائد عوامی اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں، انتخابی مہم کے لیے نت نئے طریقے استعمال کیے جارہے ہیں، جن میں سب سے دلچسپ طریقہ یہ ہے کہ شہریوں کو موبائل پر پارٹی سربراہوں یا پھر متعلقہ امیدواروں کی ریکارڈڈ کال موصول ہوتی ہے جس میں ووٹ کا تقاضا کیا جاتا ہے۔
وی نیوز نے عام انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی تیاریوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی کہ 2018 اور 2024 کے انتخابات میں کیا مماثلت ہے؟
مزید پڑھیں
سال 2013 میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن نے وفاق میں حکومت بنائی تھی اور نواز شریف وزیراعظم بنے تھے، سال 2018 سے قبل نواز شریف کو نیب کے 2 ریفرنسز العزیزیہ ریفرنس اور ایون فیلڈ ریفرنس میں 7 اور 10 سال قید کی سزا اور 8 ملین پاؤنڈ جرمانہ عائد کرتے ہوئے نااہل بھی کردیا گیا، جس کے نتیجہ میں وہ پارٹی صدارت سے بھی محروم کردیے گئے۔
سال 2018 میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف نے وفاق میں حکومت بنائی تھی تاہم 2024 کے انتخابات سے قبل عمران خان کو 3 مقدمت میں 7, 10 اور 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، اس قبل نہ صرف وہ پارٹی کے سربراہ نہیں رہے بلکہ پارٹی سے انتخابی نشان بھی واپس لے لیا گیا ہے۔
سال 2018 کے عام انتخابات سے قبل ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم کو جیل بھیج دیا گیا تھا اسی طرح اب 2024 میں ایک اور جماعت کے سربراہ اور وزیراعظم رہنے والے شخص کو سزائیں سنا کر جیل میں قید کر دیا گیا ہے۔
ملک بھر کی بڑی سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے انعقاد سے دو ماہ قبل بھر پور انداز میں انتخابی مہم کا آغاز کر دیتی ہیں، 2018 کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتیں ملک بھر میں انتخابی مہم چلا رہی تھیں، آئے روز بڑے شہروں میں بڑے جلسے ہوتے تھے، شہری علاقوں میں دن رات کارنر میٹنگز ہوتی تھیں، جگہ جگہ امیدواروں کے بینرز اور پوسٹر لگے ہوتے تھے۔
اس مرتبہ لیکن 8 فروری سے 2 ماہ قبل 8 دسمبر کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شاید انتخابات میں تاخیر ہو جائے گی، یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں روایتی انتخابی گہما گہمی نظر نہیں آ رہی تھی، ایک دو جلسوں کے علاوہ کوئی بڑے عوامی اجتماع کا بھی انعقاد نہیں کیا گیا۔
2018 کے عام انتخابات سے قبل بانی پی ٹی آئی عمران خان نے انتخابی مہم کا ایک نیا طریقہ متعارف کرایا تھا جس میں عمران خان کی ریکارڈڈ کال ووٹرز کو موصول ہوتی تھی، جس میں عمران خان پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کا کہتے تھے، اب 2024 کے انتخابات میں اسی رجحان کو زیادہ تقویت ملی ہے، اور اب نواز شریف سمیت بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی بھی کال آتی ہے اور وہ ووٹ کا تقاضا کرتے ہیں، جبکہ مختلف امیدواروں کی جانب سے بھی اپنے علاقے کے لوگوں کو ریکارڈڈ کال کی جا رہی ہے۔
2018 کے عام انتخابات میں ملک بھر کے 17 ہزار پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا گیا تھا، اور ان انتخابات میں 3 لاکھ 71 ہزار فوجی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا، اس بار 46 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا گیا ہے اور سیکیورٹی کے لیے 2 لاکھ 77 ہزار فوجی اہلکار فرائض سرانجام دیں گے۔
سال 2018 کے انتخابات میں ووٹرز کو موبائل فون پولنگ اسٹیشن میں لے جانے کی اجازت نہ تھی تاہم متعدد پولنگ اسٹیشنز میں پولنگ عملے کے پاس موبائل فون ہونے کی شکایت موصول ہوئی ہیں تاہم اب 2024 میں الیکشن کمیشن نے واضح کیا ہے کہ صرف پریزائڈنگ افسروں کو پولنگ اسٹیشنز میں موبائل فون رکھنے کی اجازت ہو گی، اس کے علاوہ نہ پولنگ عملہ اور نہ ہی ووٹر پولنگ اسٹیشن میں موبائل فون لا سکتا ہے۔