پاکستان میں ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں سے یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اسی دن کو یاد رکھا جاتا ہے۔ مگر 2023 کا 5 فروری ایک اور وجہ سے بھی یاد گار ہو گیا۔ اس دن پاکستان کے سابقہ طاقت ور ترین حُکمران پرویز مشرف کا انتقال ہوا۔
پرویز مشرف کا نام ذہن میں آتے ہی کسی ریاست کے بے پناہ اختیارات کے حامل بادشاہ کا خیال آجاتا ہے جسے درباریوں کے حصار میں خادم مور پنکھ سے ہوا دے رہے ہوں اور وہ مصاحبین کے جلو میں عوام الناس کی تقدیر کے فیصلے کر رہا ہو۔ اگر آپ نے وہ زمانہ دیکھا ہو تو آپ کو اندازہ ہو گا، نہیں تو اپنے کسی بڑے سے پوچھ لیں یا تاریخ پڑھنے کا تردد کر لیں۔ یہ کل کی بات ہے کہ صدرِ پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف، ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ان کے منہ سے نکلا ہو ا ہر لفظ آئین اور قانون تھا۔
12 اکتوبر 1999ء کی شام تک نواز شریف ملک کے جمہوری وزیرِ اعظم تھے مگر شام کے رُخصت ہوتے ہی نواز شریف کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہو گیا۔ رات گئے وزیرِ اعظم پاکستان کے تعینات کردہ چیف آف آرمی سٹاف نے عنانِ اقتدار بطور چیف ایگزیکٹو سنبھال لیا۔
ایک خیال یہ ہے کہ نواز شریف نے کچھ بھی خلافِ قانون نہیں کیا تھا بلکہ ملک کے آئینی سربراہ کے طور پر ان کا یہ اختیار تھا کہ وہ ایک آرمی چیف کو نوکری سے فارغ کر کے کسی دوسرے کو تعینات کر دیں۔ جنرل پرویز مشرف کو بر طرف کر کے جنرل ضیا الدین بٹ کو فوج کا سربراہ مقرر کرنا وزیرِ اعظم کا اختیار تھا۔
مشرف کے طیارہ اغواء کیس کا مقصد محض نواز شریف کو سبق سکھانا تھا۔ اس کے سوا بس قصہ کہانی ہے۔ اگر آپ 12 اکتوبر 1999ء کو رونما ہونے والے واقعات کا جائزہ لیں تو معاملات اتنے بھی سادہ نہیں تھے۔ 2 حرفی بات یہ ہے کہ جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لیے جانے کے بعد فوج کے ادارے میں غم و غصے کی ایک لہر پائی جاتی تھی۔ کارگل کی جنگ کے بعد آرمی چیف اور وزیرِ اعظم کے درمیان تناؤ ڈھکا چُھپا نہیں تھا۔ نواز شریف اندازے کی غلطی کر گئے اور پھر بازی اُلٹ گئی۔ وزارتِ عظمیٰ گئی اور خود پابندِ سلاسل ہوئے۔
نواز شریف اور ان کا خاندان قید و بند کی صعوبتیں بر داشت کر رہا جبکہ پارٹی تتر بتر ہو چکی تھی۔ آخر کار وہ اور ان کا خاندان ایک خفیہ معاہدے کے تحت سعودی عرب چلے گئے۔
جلد ہی ملک کے چیف ایگزیکٹو نے صدرِ مملکت کا روپ دھار لیا۔ بعد ازاں ریفرنڈیم کے ذریعے خود کو 5 سال کے لیے بلا مقابلہ منتخب کروا لیا۔ مضبوط بلدیاتی نظام کی داغ بیل ڈالی۔ مسلم لیگ کے بطن سے حسبِ منشا ایک اور مسلم لیگ، ق لیگ کی شکل میں برآمد کی گئی۔ روایت ہے کہ اصلی مسلم لیگ وہی ہوتی ہے جو اقتدار میں ہو۔
مزے کی بات یہ کہ پاکستان میں 3 فوجی آمر آئے، جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف جن کی حُکمرانی کا دورانیہ طویل ترین تھا۔ تینوں آمروں نے سیاست دانوں کو سیاست سے بے دخل کرنے کے لیے کم و بیش ایک سا طریقہ اختیار کیا۔ جنرل ایوب نے ایبڈو کا سہارا لے کر سیاست دانوں سے سیاست کا سہارا چھینا۔ جنرل ضیاء نے طویل عرصہ انتخابات ہی نہ کرائے۔ ایک مدت بعد کرائے تو غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے تجربہ کار سیاست دانوں کی اکثریت کو فارغ کر دیا۔ جنرل مشرف نے پہلے تو مسلم لیگ کا تیا پانچہ کیا اور پھر قومی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بی اے کی شرط کو لازمی قرار دے کر ایک بڑی تعداد کی سیاست پر جھاڑو پھیر دیا۔ مطلب سب ڈکٹیٹرز کا طریقہِ واردات ایک جیسا ہے کہ پرانے اور تجربہ کار سیاست دانوں کو فارغ کر کے نو مولود اور نو آموز سیاست دانوں کی نرسریاں اُگا کر خود ان کا راہ نما بنا جائے۔
مصیبت یہ ہے کہ سب ڈکٹیٹرز سیاست دانوں کی بری کار کردگی، بد عنوانی، نااہلی اور ایسی ہی دیگر برائیوں کی گردان کرتے ہیں۔ سیاست اور سیاست دانوں کو راندۂِ درگاہ قرار دیتے ہیں، مگر چند سال کے بعد ان کے درباری اور مصاحبین انھیں یقین دلاتے ہیں کہ وہ تو اصل مسیحا ہیں۔ عوام ان پر دل و جان سے فدا ہیں اور ان کے بغیر ملک و ملت کی نیّا کنارے نہیں لگے گی۔ آمر صاحب بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے بلکہ مصاحبین کی باتوں پر دل و جان سے یقین کر کے عوام کی سوئی قسمت جگانے کے لیے کمر کس لیتے ہیں۔ پھر سیاست اور سیاست دانوں کے توسط سے اپنے اقتدار کا جواز ڈھونڈتے ہیں۔
افغان جنگ میں امریکہ کے بلا چون و چرا اتحادی بنے تو کل کے جہادی جب اچانک دہشت گرد قرار پائے تو پاکستان ایک ایسی اندھی جنگ کا ایندھن بن گیا جس کا ہماری کئی نسلوں کو خراج دینا پڑا۔ جس میڈیا کو آزادی دینے کا کریڈت لیتے مشرف تھکتے نہیں تھے، اس پر پابندیاں عائد کیں۔ بلوچستان میں بزرگ سیاست دان اکبر بُگٹی طالع آزما کے تکبر کا نشانہ بنے اور جان سے گئے۔ یہ ایسا واقعہ تھا جس کے اثرات سے آج تک بلوچستان اور پاکستان نہیں نکل سکے۔
دہشت گردی کے ناسور نے ہمارے معاشرے اور ملک کو جہنم بنا دیا۔ لال مسجد جیسے سانحے وقوع پزیر ہوئے۔ خود کُش حملے جیسے عفریت نے جنم لیا اور لاکھوں لوگ اس کا شکار ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اسی لہر کا شکار ہوئیں۔ کون سی آنکھ تھی جو ان کی موت پر اشک بار نہ ہوئی۔
عدلیہ کو لونڈی سمجھنے والے ڈکٹیٹر نے چیف جسٹس کو چلتا کیا تو پاکستان کے وکلاء اُٹھ کھڑے ہوئے۔ گو کہ آج شاید اس تحریک کے پیچھے ہمیں کچھ اور محرکات بھی نظر آئیں۔ مگر اس تحریک نے پوری قوم کو ایک نئے جذبے سے روشناس کیا۔
وقت کے آمر نے وقت کے آگے بند باندھنے کے لیے پوری تگ و دو کی مگر ناکام رہا۔ ایمرجنسی لگائی، عدلیہ کو گھر بھیج دیا، میڈیا پر پابندیاں لگائیں، مگر وقت اور سیاست دانوں کے ہاتھوں مات کھا گیا۔ اقتدار اُس کے ہاتھ سے ریت کی طرح پھسلنا شروع ہو گیا۔ مُکے لہرانا، 12 مئی کو کراچی میں زور آزمائی یا خود کو دوبارہ صدر منتخب کروانا کچھ کام نہ آیا۔ جونہی وہ وردی اتاری جس کو وہ اپنی کھال قرار دیتا تھا، سیاست دانوں نے کہا استعفیٰ دو نہیں تو آئینی طور پر محاصرہ کر کے گرائیں گے۔ صاحب نے قوم کے سامنے تقریر تو روایتی جوش و جذبے سے کرنے کی کوشش کی مگر صاف پتا چلتا تھا کہ چراغوں میں لو نہیں رہی۔ بجھے ہوئے لہجے سے احساسِ شکست نمایاں تھا۔
پھر جنرل جلاوطن ہو گیا۔ عدالت میں آئین شکنی کا مقدمہ چلنا شروع ہوا۔ جنرل بلند و بانگ دعوؤں سے واپس آیا مگر پھر حالات کے گھیرے میں ایسا آیا کہ اگر مدد کو غیبی طاقتیں نہ آتیں تو کٹہرے میں بار بار کھڑے ہونا پڑتا اور ایک دن پتا پانی ہو جاتا۔
وہ شخص جس کے رُعب، دبدے اور طنطنے کے سامنے کوئی شے نہ ٹھہرتی تھی، وہ رُکے ہوئے پانی کی کیفیت اختیار کر گیا۔ جلا وطنی کے دوران ہی جسٹس وقار سیٹھ کی عدالت نے آئین شکنی کی پاداش میں چوک میں پھانسی دینے کا فیصلہ دیا۔
اس فیصلے پر کیا عمل ہونا تھا کہ 5 فروری 2023ء آیا اور جنرل مشرف قصۂِ پارینہ ہو گئے۔ گو کہ اُسے پورے اعزاز کے ساتھ سلامی دے کر دفن کیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے پھانسی کا فیصلہ بھی معطل کر دیا اگر چہ یہ علامتی تھا۔ اب آ کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت نے جنرل مشرف کو پھانسی دینے کی سزا بحال کر دی ہے۔
آج بھی کسی نہ کسی ٹرک کے پیچھے جنرل ایوب کی تصویر نظر آ ہی جاتی ہے۔ جنرل ضیاء کے تاریخی جنازے پر ملک کے قومی ٹی وی پر اظہر لودھی کا ہچکیاں لیتے ہوئے رواں تبصرہ آج بھی قوم کی یاد داشت کا حصہ ہے۔ جنرل مشرف کی شان و شوکت تو ابھی کل کی بات ہے۔
پیچھے مُڑ کر اپنی قومی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو افسوس اور دکھ کا احساس ہوتا ہے۔ اپنے وقت کے طاقت ور ترین لوگوں کا خیال آتا ہے تو فوراً افتخار عارف کا یہ شعر زبان پر آ جاتا ہے۔
یہ وقت کس کی رعونت پر خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں