20 سالہ فیس بک نے بچپن سے اب تک کیا کیا گل کھلائے؟

پیر 5 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مارک زکربرگ اور ان کے چند دوستوں آج سے 20 برس قبل امریکا میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کی بنیاد رکھی جس کا مقصد لوگوں کو آپس میں آن لائن جوڑنا اور اشتہارات سے پیسے کمانا تھا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ابتدا سے اب تک دنیا کے اس مقبول ترین سوشل نیٹ ورک کو درجنوں بار دوبارہ ڈیزائن کیا جا چکا ہے۔ اس ویب سائٹ نے دنیا کو 4 طریقوں سے تبدیل کیا۔

فیس بک نے سوشل میڈیا کی دنیا تبدیل کرکے رکھ دی

دیگر سوشل نیٹ ورکس بشمول مائی اسپیس، فیس بک سے پہلے موجود تھے لیکن مارک زکربرگ کی سائٹ نے سنہ 2004 میں لانچ ہونے کے بعد تیزی سے کام شروع کر دیا اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں دنیا بھر میں اس کے ایک کروڑ صارفین ہوگئے۔ اس نے لوگوں کو تصاویر ٹیگ کرنے سمیت دیگر اختراعات کے ذریعے 4 سال کے اندر مائی اسپیس کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

ڈیجیٹل کیمرے کے ذریعے درجنوں تصویریں کھینچنا اور پھر اپنے دوستوں کو ٹیگ کرنا نوعمری کے اہم مشاغل میں سے ایک ہوتا ہے لہٰذا اس سہولت کے باعث فیس بک لوگوں کے دلوں میں گھر کرتا چلا گیا۔ سنہ 2012  تک فیس بک نے ایک ماہ میں ایک ارب صارفین کو عبور کر لیا تھا اور یہ پلیٹ فارم مسلسل بڑھتا چلا گیا ہے۔

ایسے ممالک جہاں لوگوں کو کنیکٹ ہونے کی سہولت کم مہیا ہوتی ہے وہاں فیس بک نے مفت انٹرنیٹ کی پیشکش کی اور اس طرح کمپنی نے فیس بک کے صارفین کی تعداد بڑھاتی رہی۔ سنہ 2023 کے آخر میں فیس بک کے یومیہ 2 ارب 11 کروڑ صارفین تھے۔

گو یہ سچ ہے کہ فیس بک اب نوجوانوں میں اس طرح سے مقبول نہیں رہا جیسا کہ پہلے تھا لیکن پھر بی دنیا کا سب سے مقبول سوشل نیٹ ورک ہے اور اس نے آن لائن سماجی سرگرمیوں کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔

فیس بک نے ذاتی ڈیٹا کو قیمتی اور کم ذاتی بنا دیا

کچھ لوگ فیس بک کو کنیکٹیوٹی کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں توکچھ اس پر نکتہ چینی بھی کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ذاتی ڈیٹا مشتہر ہوجاتا ہے۔

فیس بک نے ثابت کیا کہ ہماری پسند اور ناپسند کو جمع کرنا انتہائی منافع بخش ہے۔ ان دنوں فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا ایک اشتہاری کمپنی ہے جو عالمی اشتہارات کی رقم کا بڑا حصہ بٹورتی ہے۔

حال ہی میں میٹا نے اعلان کیا تھا کہ سنہ 2023 کی آخری سہ ماہی میں اسے 40 ارب امریکی ڈالر کی آمدنی ہوئی اور اس میں کمپنی کا منافع 14 ارب ڈالر رہا۔

لیکن فیس بک نے ڈیٹا کلیکشن کرکے معاملات کچھ خراب بھی کیے اور ذاتی ڈیٹا کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے پر اس کے خلاف متعدد بار جرمانہ بھی کیا گیا۔

سب سے زیادہ مشہور کیس سنہ 2014 میں کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل تھا جس کی وجہ سے فیس بک کو ڈیٹا کی ایک اہم خلاف ورزی کی وجہ سے ساڑھے 72 کروڑ ڈالر ادا کرنے پڑے۔

سال 2022  میں فیس بک نے سائٹ سے ذاتی ڈیٹا نکالنے کی اجازت دینے پر یورپین یونین کو ساڑھے 26 کروڑ یورو جرمانہ بھرا۔ پچھلے سال کمپنی کو یورپی صارفین کے ڈیٹا کو دائرہ اختیار سے باہر منتقل کرنے پر آئرش ڈیٹا پروٹیکشن کمیشن کی طرف سے ریکارڈ ایک ارب 20 کروڑ کا جرمانہ عائد کیا گیا جس پر فیس بک کی جانب سے اپیل دائر کی جارہی ہے۔ 

فیس بک نے انٹرنیٹ کو سیاسی بنا دیا

ٹارگٹڈ اشتہارات پیش کرنے سے فیس بک دنیا بھر میں انتخابی مہم کا ایک بڑا پلیٹ فارم بن گیا ہے۔

مثال کے طور پر سال 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات سے پہلے 5 مہینوں میں موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم نے فیس بک کے اشتہارات پر 4 کروڑ ڈالر سے زیادہ خرچ کیے۔

نچلی سطح کی سیاست کو تبدیل کرنے میں بھی فیس بک کا ہاتھ رہا ہے- صارفین کے مختلف گروپس کو اکٹھا کرنے، مہم چلانے اور عالمی سطح پر کارروائی کی منصوبہ بندی کے قابل بنانے کے لحاظ سے بھی فیس بک نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور اس طرح اس نے نچلی سطح کی سیاست کو خاصی حد تک تک تبدیل کیا ہے۔

لیکن سیاسی مقاصد کے لیے فیس بک کو اپنانے پر اس کے انسانی حقوق پر اثرات سمیت اس کے کچھ نتائج پر تنقید کی گئی ہے۔ سنہ 2018 میں فیس بک نے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ سے اتفاق کیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ میانمار میں روہنگیا لوگوں کے خلاف آف لائن تشدد کو ہوا دینے کے لیے پلیٹ فارم کا استعمال کرنے والے لوگوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔

فیس بک کے باعث میٹا کا غلبہ

فیس بک کی زبردست کامیابی کے ذریعے مارک زکربرگ نے سوشل نیٹ ورک اور ٹیکنالوجی کی سلطنت بنائی جو صارفین کی تعداد اور اپنے اپنے مؤثر پن میں بے مثل ہے۔ فیس بک نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ والی دیگر کمپنیوں بشمول واٹس ایپ، انسٹاگرام اور اوکولس کو خریدا اور پھر سنہ 2021 اس کا نام تبدیل ہو کر میٹا ہوگیا۔

یاد رہے کہ کمپبنی نے انسٹاگرام، واٹس ایپ اور اوکولس کو بالترتیب ایک ارب، 19 ارب اور 2 ارب ڈالر میں خریدا تھا۔ جن کمپنیوں کو میٹا کمپنی خرید نہیں سکی ان کے حوالے سے اس پر ان کی نقالی کرنے کے الزامات لگتے رہے اور کہا گیا کہ میٹا کمپنی ایسا اپنا غلبہ برقرار رکھنے کے لیے کرتی ہے۔

فیس بک اور انسٹاگرام کا اسٹوریز فیچر اسنیپ چیٹ پر پائے جانے والے کلیدی فیچر کی طرح ہے جبکہ انسٹاگرام ریلز ٹک ٹاک اور تھریڈز ’ایکس‘ کی طرز پر شروع کیا گیا ہے۔

بڑھتے ہوئے کمپیٹیشن اور زیادہ سخت ریگولیٹری ماحول کی بدولت میٹا کی یحکمت عملی پہلے سے کہیں زیادہ نوٹ کی جار ہی ہیں۔ سنہ 2022 میں اسے برطانیہ کے ریگولیڑز نے میٹا کو ’جف‘ بنانے والی کمپنی جفی کو نقصان میں فروخت کرنے پر مجبور کیا جس کی وجہ وہ خوف تھا کہ کہیں میٹا مارکیٹ پر بالکل ہی قابض نہ ہوجائے اور اس کی اجارہ داری ہی نہ قائم ہوجائے۔

میٹا کا کہنا ہے کہ 3 ارب سے زیادہ لوگ روزانہ اس کی کم از کم ایک سائٹ ضرور استعمال کرتے ہیں۔

فیس بک کا مستقبل

فیس بک کا عروج اور مسلسل غلبہ مارک زکربرگ کی سائٹ کو متعلقہ رکھنے کی صلاحیت کا ثبوت ہے۔ گو اس نے اپنے 20 برس بڑے شاندار طریقے سے گزارے ہیں اور کسی زوال کا سامنا نہیں کیا لیکن آئندہ 20 برسوں میں بھی اپنی بادشاہت قائم رکھنا میٹا کے لیے بلاشنہ ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔

میٹا کے لیے مصنوعی ذہانت بھی ایک بڑی ترجیح ہے اس لیے ممکن ہے کہ مستقبل میں کمپنی کی توجہ فیس بک سے تھوڑی ہٹ جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp