سائنسدانوں نے آکلینڈ اسپتال میں’ انجیوڈیما ‘ کا کامیاب علاج ڈھونڈ لیا

پیر 5 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سائنسدانوں نے ’انجیوڈیما‘ جو ایک جینیاتی خرابی کے باعث پیدا ہونے والی بیماری ہے کا کامیاب علاج ڈھونڈ لیا ہے، سائنسدان جین تھراپی کے ذریعے انجیوڈیما کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

’انجیو ڈیما‘ جینیاتی خرابی کے باعث پیدا ہونے والی ایک ایسی خطرناک بیماری ہے، جس سے آپ کے ہونٹوں، آنکھوں، چہرہ اور گردن پر شدید سوجن ہو جاتی ہے، انسان شدید کمزور ہو جاتا ہے، اس سے زبان پر اس قدر سوجن ہو جاتی ہے کہ یہ آپ کی سانس کی نالیوں کو بھی بند کر سکتی ہے۔ یہ اس قدر مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے کہ آپ جان سے بھی جا سکتے ہیں۔

 

ماہرین طب کا خیال ہے کہ ’انجیوڈیما ‘ سے دُنیا بھر میں قریباً 50,000 افراد متاثر ہیں، لیکن اب سائنسدانوں نے اس کا کامیاب علاج دریافت کر لیا ہے جو آپ کو پر سکون اور اس بیماری کی تکلیف سے نجات دلا سکتا ہے۔

سائنسدانوں نے ’انجیوڈیما‘ کے علاج کے لیے ’جین تھراپی کرسپر۔کیس9  تیار کی ہے جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اس کی ایک خوراک زیر علاج مریضوں میں اسے مزید بڑھنے سے روک سکتی ہے۔

آکلینڈ اسپتال میں کلینیکل امیونولوجسٹ ڈاکٹر ہلیری لونگ ہرسٹ کا کہنا تھا کہ ‘ایسا لگتا ہے کہ سنگل ڈوز یعنی ایک ہی خوراک میرے موروثی اینجیوڈیما کے مریضوں کا مستقل علاج فراہم کرے گی‘۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ تھراپی میں دیگر جینیاتی مسائل کا علاج  بھی بڑے مؤثر انداز سے کر سکتی ہے۔

ڈاکٹر ہلیری لونگ کا کہنا ہے کہ ’انجیوڈیما‘ انسانی جسم میں پائی جانے والی نرم بافتوں(نرم ٹشوز ) میں سوجن کا سبب بنتی ہے اور آنکھوں، ہونٹوں، چہرے کے علاوہ جسم کے دیگر بہت سے حصوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔

سفوک سے تعلق رکھنے والے کلیولینڈ فرمن، جنہوں نے برطانیہ میں انجیوڈیما کا علاج کرایا کا کہنا ہے کہ انجیوڈیما کے حملوں کی شدت نے میری زندگی گزارنے کی کوشش کو تقریباً ناممکن بنا دیا تھا۔ میں نے اپنی زندگی مسلسل یہ سوچتے ہوئے گزاری کہ کیا مجھ پر اس بیماری کا اگلا حملہ اس سے بھی شدید ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انجیوڈیما‘  سے بننے والی سوجن دردناک ہوتی ہے، اس سے جسم میں جلن اور شدید درد ہوتا ہے۔ ’مجھ پر جب بھی انجیوڈیما کا حملہ ہوتا تو میں باہر جانے میں شرمندگی محسوس کرتا۔ میری گردن اور گلے پر سوجن کی وجہ سے مجھے اسپتال میں داخل کرایا گیا کیوں کہ اس نے میری سانس لینے کی صلاحیت کو بھی متاثر کر دیا تھا۔

کلیولینڈ فرمن کا کہنا تھا کہ جین تھراپی کے علاج کے بعد سے مجھ پر اس بیماری کا ایک بھی حملہ نہیں ہوا ہے۔ میں اپنی جسمانی اور ذہنی تندرستی میں بنیادی طور پر بہت بہتری محسوس کر رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں مستقبل کے بارے میں اب بہت پر اُمید ہوں حتیٰ کہ میں نے رضاکارانہ طور پر کام بھی شروع کر دیا ہے۔

 جین تھراپی میں سنگل انفیوژن

کرسپر۔کیس9 ایک ڈی این اے کٹنگ اور پیسٹنگ سسٹم ہے جسے سائنسدانوں نے انسان کے فطری نظام سے ہی ادھار لیا جسے بیکٹیریا وائرس سے بیرونی ڈی این اے کے خلاف خود کو بچانے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں۔

سائنسدان لیبارٹری میں بیماریوں کا سبب بننے والے انسانی خلیوں سے خراب ڈی این اے کو نشانہ بنانے اور اسے کاٹ کر الگ کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

’نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس طریقہ علاج سے برطانیہ، نیوزی لینڈ اور نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے مریضوں کے ایک چھوٹے سے گروپ میں انجیوڈیما کی علامات میں 95 فیصد کمی واقع ہوئی، اس مقصد کے لیے جگر کے خلیات کو ٹارگٹ کیا گیا تاکہ کے ایل کے بی 1 جین کی پلازما پریکلیکرین پیدا کرنے کی صلاحیت کو کم کیا جا سکے۔ ان میں سے صرف ایک مریض میں علامات ظاہر ہوتی رہیں، جو صرف معمولی تھیں۔

کیمبرج یونیورسٹی ہاسپٹل میں تحقیق کی برطانوی شاخ کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر پدم لال گروگاما نے کہا کہ اس تھراپی سے زندگیوں میں نمایاں بہتری آسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موروثی انجیوڈیما مریضوں کو شدید سوجن اور شدید درد کا باعث بن سکتا ہے جو جان لیوا ہونے کے ساتھ ساتھ معمول کی سرگرمیوں جیسے کام یا اسکول جانے کو بھی محدود کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف انجیوڈیما کے لیے ہی نہیں بلکہ دیگر بیماریوں کے علاج کے لیے بھی اس کے تجربات کیے جائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp