مشہور صحافی وسعت اللہ خان نے ایک کالم لکھا تھا کہ الیکشن کے دنوں میں بہت سے کاروبار شروع ہوجاتے ہیں جس سے غریب لوگوں کا کچھ بھلا ہوجاتا ہے۔ جس طرح رمضان المبارک کے مہینے میں چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع ہوتے ہیں جس سے غریب لوگ افطار کے وقت تک اپنے بچوں کے لیے کھانے پینے کا سامان لے جانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ملک میں ہر 4 سال بعد، اور کبھی اس سے بھی پہلے، الیکشن کا موسم آ جاتا ہے جس میں غریبوں کو جلسے میں شرکت کرنے کے پیسے ملتے ہیں، انہیں ٹرکوں اور گاڑیوں میں بھر کربھیڑ بکریوں کی طرح لایا جاتا ہے، 2 وقت کی روٹی، چائے اور کبھی کبھار بریانی دی جاتی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگوں کو سیاسی پارٹیوں کی جانب سے چھوٹے چھوٹے کام مل جاتے ہیں اور ان کی لاٹری نکل آتی ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ الیکشن کے خاتمے کے بعد سیاست دان اپنا حساب لگاتے ہیں اور ہارنے والے امیدواروں کے پاس جب بل آتے ہیں تو انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ اقتدار میں ہوتے ہوئے جس عوام کو وہ چونا لگاتے ہیں، الکیشن میں اسی عوام نے انہیں کتنا چونا لگایا ہے۔ انہیں فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ پیسہ ان کے جیب سے تھوڑی نکلتا ہے۔ کوئی نہ کوئی سپانسر ہوتا ہے یا کالا دھن ہوتا ہے جو الیکشن پر لگایا جاتا ہے۔
الیکشن کے نتیجے میں 5 سال کے لیے پارلیمنٹ کا انتخاب ہوتا ہے مگر یہ اپنی مدت بمشکل ہی پوری کر پاتی ہے۔ اس میں بھی وہی پرانے چہرے نئے لبادے کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور عوام کو اُلو بناتے ہیں۔ میں اپنی عوام کے لئے کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ یہ کیسے اُلو بن جاتے ہیں، ان کے مسائل حل نہیں ہوتے پھر بھی یہ زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے۔ وہی چہرے جن کو 3 سال پہلے دیکھا ہوتا ہے وہ کوچہ کوچہ گلی گلی پھرتے ہیں، عوام کی غم گساری کرتے ہیں۔ جنازوں میں شریک ہوتے ہیں اور تعزیتیں کرنے آتے ہیں۔ ہر کس و ناکس سے ملتے ہیں، وہ بھی خوش اخلاقی سے ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عوام کیوں کر بے وقوف بنتے ہیں؟ ہم نے ہر الیکشن سے پہلے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے کاغذ کالے کیے ہیں مگر عوام سمجھتی ہی نہیں ہے۔ شاید وہ ہم سے زیادہ سمجھتی ہے اور ہم ٹھہرے کم عقل اور کند ذہن جو اندھوں کے شہروں میں آئینے فروخت کرتے ہیں۔ کم عقل بھی نہیں پاگل کہیے، کیونکہ ہم سوال کرتے ہیں اور سوال بھی وہ جن کے جواب نہیں ہوتے۔ اس الیکشن سے پہلے ہم پھر کچھ سوال لے کر آئے ہیں۔ یہ ہر پاکستانی کے دل کے سوالات ہیں، جنہیں مختلف مواقع پر مختلف شخصیات کی جانب سے کئی بار پوچھا جا چکا ہے۔
پہلے اپنے ارد گرد نظر ڈالیں کیا آپ کے علاقے میں کوئی ترقی کا کام ہوا ہے؟ وہ کام جو آپ کا بنیادی حق ہے جس کی یقین دہانی آئین میں کرائی گئی ہو؟ سکیورٹی،صحت کی سہولیات، تعلیم تک رسائی، سڑک، پانی ، بجلی، گیس اور اس جیسی دیگر سہولیات کیا آپ کو میسر ہیں؟
کیا آپ نے سیاسی پارٹیوں کے آئین اور منشور کو پڑھا ہے؟ وہ کیا دعوے کرتے ہیں؟
کیا کسی سیاسی پارٹی کے منشور میں کہا گیا ہے کہ انگلش سے چھٹکارا پایا جائے گا اور قومی زبان اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت دی جائے گی؟
کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں یہ بات ہے کہ اساتذہ کو بیورکریٹ سے زیادہ مراعات دی جائیں گے جو ملک کے معمار بناتے ہیں؟
کیا کسی سیاسی پارٹی کے منشور میں یہ بات ہے کہ علاقائی زبانوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو کو دوام بخشا جائے گا، انگریزی سیکنڈری زبان ہوگی؟
کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں یہ بات ہے کہ سردیوں کی چھٹیاں سخت سردی میں اور گرمی کی چھٹیاں سخت گرمی میں دی جائیں گی۔ فالتو چھٹیوں کا خاتمہ کیا جائے گا؟
کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں یہ بات ہے کہ تمام صوبوں میں یکساں نظام تعلیم ہوگا؟ مذہبی تعلیم دی جائے گی اور غیر مسلموں کے لئے اُن کی مذہبی تعلیم کے لئے کوشش کی جائے گی؟
کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں یہ بات ہے کہ امن اور آشتی کے لئے سب مذہبی جماعتوں کو ساتھ لے کر جایا جائے گا؟
کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں یہ بات ہے کہ طبقاتی نظام کسی بھی محکمے میں نہیں ہوگا، چاچا ماما تایا، رشتہ دار کو فوقیت نہیں دی جائے گی؟
کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں یہ بات ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کے بعد حکمران جماعت کے ساتھ مل کر ملک اور قوم کی فلاح کے لئے کام کریں گے؟
کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں یہ بات ہے کہ بیرونی قرضہ بالکل نہیں لیا جائے گا اور اپنی بنائی ہوئی اشیا کو پروموٹ کیا جائے گا؟
کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں یہ بات ہے کہ وہ خودانحصاری پر فوکس کرکے تمام ممالک، خاص کر سرحد سے متصل ممالک کے ساتھ بہتر تجارت کریں گے؟
کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں یا نعروں میں غریب کے مفادات کی بات ہے؟
اگر ہے تو مہربانی کرکے اسے ووٹ دیں۔ یہی پارٹی ملک کی فلاح کا باعث ہے۔ اگر مندرجہ بالا نکات میں سے ایک بھی نہیں ہے تو ہٹ دھرمی، فضول کی عقیدت اور محبت چھوڑیں اور ایسی پارٹی کو ووٹ دیں جس کے منشور میں یہ سب نکات اٹھائے گئے ہوں۔ ووٹ ہی عوام کی طاقت ہے۔ اس کے درست استعمال سے ہی بہتری آئے گی۔ عوام دوست حکومت قائم ہوگی اور ترقی کی راہیں کھلیں گی۔ لیکن اگر ایسی کوئی بھی پارٹی نہیں ملتی تو الیکشن کا دن سو کر گزاریں۔ اس ملک کا کچھ نہیں ہونے والا۔ یہ وہی لولی پاپ والی حکومت ہوگی جو اب تک بنتی آئی ہے۔