اقلیتوں کی مخصوص نشستیں مسائل کا حل یا خود مسئلہ ؟

بدھ 7 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے 10 نشستیں مخصوص ہیں جبکہ اقلیتی نمائندگان کا کہنا ہے کہ ان نشستوں میں ہندو، مسیحی، سکھ، پارسی نشستوں کی تفریق ختم کرکے پیسے والوں کے لیے راستہ کھولا گیا ہے اور ایسے لوگ پارلیمنٹ پہنچ جاتے ہیں جو اقلیتوں کے زمینی مسائل سے بالکل نابلد ہوتے ہیں۔

راولپنڈی میں گردوارہ نہیں، سکھ جوڑوں کو شادی کے لیے حسن ابدال جانا پڑتا ہے: سردار ہیرا لعل

پاکستان ہندو سکھ سوشل ویلفیئر کونسل کے صدر سردار ہیرا لعل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کا سب سے بڑا مسئلہ سرکاری ملازمتوں میں ان کا 5 فیصد کوٹہ ہے جس کا اطلاق کہیں نظر نہیں آتا۔

عام انتخابات کے حوالے سے ہندو سکھ کمیونٹی کیا سوچتی ہے، سردار ہیرا لعل کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر ہم صرف یہ سوچتے ہیں کہ جو بھی آئے اس ملک کے لیے اچھا ہو، اس ملک میں مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل حل کرے اور میرٹ پر کام کرے۔ اقلیتیں کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتی ہیں، ہم کئی نسلوں سے اس ملک میں رہتے ہیں اور پاکستان ہی کو اپنا ملک سمجھتے ہیں۔

اقلیتی نمائندگان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے نمائندے سیلیکٹ ہو کر آتے ہیں جبکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ الیکٹ ہوکر آئیں۔ دوسرا کراچی سے اگر کوئی اقلیتی نمائندہ منتخب ہو کر آتا ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا ہے کہ راولپنڈی میں رہنے والی اقلیتوں کے کیا مسائل ہیں؟

ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے نمائندگان علاقائی بنیادوں پر منتخب ہو کر آئیں۔ ایسے نمائندگان ہوں جو ہمیں اور جنہیں ہم جانتے ہوں اس لیے ہم یہ چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں جنرل نشستوں سے بھی اقلیتی نمائندوں کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیں۔

مندروں اور گردواروں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پورے راولپنڈی شہر میں ایک کرشنا مندر ہے۔ کھانے پینے کے حوالے سے ہندو برادری کے کچھ مسائل ہوتے ہیں۔ اس لیے سندھ سے جو ہندو تعلیم یا علاج کی غرض سے راولپنڈی آتا ہے تو وہ کرشنا مندر میں قیام کرتا ہے، جہاں 3 دن سے زیادہ رکنے کی اجازت نہیں ہوتی، یہ مسئلہ حل طلب ہے، دوسرے راولپنڈی میں کوئی فعال گردوارہ نہیں اور سکھ جوڑوں کو شادی کے لیے حسن ابدال جانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اقلیتی بچوں کے کوٹے پر داخلوں کے مسائل ہیں۔

مخصوص نشستیں نہیں اقلیتوں کو عام انتخابات کے پارٹی ٹکٹس دیں: ندیم جوزف

مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ندیم جوزف جو راولپنڈی میں پرائیویٹ اسکول چلاتے ہیں اور ساتھ میں وکالت بھی کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اقلیتوں کو مخصوص نشستوں کے بجائے جنرل نشستوں پر ٹکٹس دیں جو اصل جمہوریت ہے اور ہمارا جمہوری حق ہے۔ پیپلز پارٹی نے کچھ غیر مسلموں کو جنرل نشستوں پر ٹکٹس دیے ہیں لیکن وہ صرف خانہ پری ہے۔

اقلیتی نمائندوں کو جب جنرل نشستوں پر ٹکٹس دیے جائیں گے تو اقلیتیں پارٹی آئیڈیالوجی پر ووٹ دیں گی نہ کہ مذہب کی بنیاد پر اور اس سے ملک میں زیادہ ہم آہنگی آئے گی اور اقلیتوں میں سیاسی شعور بڑھے گا۔ ندیم جوزف نے کہا پہلے اقلیتوں کے لیے 10 نشستیں ہوا کرتی تھیں جن میں 4 ہندو، 4 مسیحی ایک پارسی اور ایک سکھوں کے لیے نشست تھی لیکن اب تقسیم ختم کرکے ساری کی ساری 10 نشستیں اقلیتوں کے لیے مخصوص کر دی گئی ہیں اور ان میں تقسیم ختم کر دی گئی ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ زیادہ تر پیسے والے ہندو ان نشستوں پر منتخب ہو کر آ رہے ہیں اور اس وقت سارا فوکس پیسوں پر ہے۔ اگر اقلیتی نمائندوں کو عام انتخابات میں حصہ لینے دیا جائے تو اس سے جو نمائندگان منتخب ہو کر آئیں گے وہ زمینی حقائق سے واقف ہوں گے۔

اقلیتوں کے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زیادہ بڑا مسئلہ جبری مذہب کی تبدیلی ہے اور دوسرا نصاب تعلیم میں غیر مسلموں کی قیام پاکستان میں کاوشوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکول میں بچوں کو بتایا جانا چاہیے کہ غیر مسلم کہیں سے ہجرت کرکے نہیں آئے بلکہ انہوں نے اپنی مرضی سے اس ملک میں رہنے کا انتخاب کیا۔

امتیازی سلوک اقلیتوں کا بڑا مسئلہ ہے

مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے مائیکل (فرضی نام ) نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ہمارے نمائندگان مخصوص نشستوں پر منتخب ہو کر آتے ہیں اس لیے آپ کارکردگی کے بارے میں تو ان سے پوچھ ہی نہیں سکتے اور ویسے بھی کسی نمائندے نے اگر کچھ کام کیا ہو تو ہم کہیں کہ کوئی اچھا یا برا ہے، پہلے آپ کو اچھے اور برے کے درمیان انتخاب کرنا پڑتا تھا لیکن یہ کیا ہوا کہ بہت برے اور کم برے کے درمیان انتخاب کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ میرے کزن انتخابات کے لیے بہت پرجوش ہیں اور ہو سکتا ہے وہ مجھے زبردستی ووٹ ڈالنے کے لیے لے جائیں لیکن ابھی تک مجھے ووٹ ڈالنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی اور نہ ہی میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کس کو ووٹ ڈالنا ہے، اقلیتوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں امتیازی سلوک ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور سب کو یکساں مواقع میسر نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp