سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا ہے کہ جب وہ اقتدار میں تھے تو انہوں نے بھی توشہ خانہ سے 2 گھڑیاں لی تھیں مگر قانون کے مطابق وہ پیسے دے کر لی گئی تھیں۔
وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سابق وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ ‘میں گھڑی نہیں پہنتا ہوں۔ ایک دو گھڑیاں تھیں وہ میرے بیٹے نے لے لیں اور جو رقم (متعلقہ حکام) نے مانگی وہ ادا کردی گئی تھی۔ ان کے علاوہ کچھ اور تحفے نہیں لیے اور وہ وہیں رہنے دیے’۔
یاد رہے کہ عمران خان کے خلاف توشہ خانے سے لی گئی گھڑیوں کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اثاثوں میں نہ ظاہر کرنے پر کیس اسلام آباد کی مقامی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ جب اس حوالے سے شاہد خاقان عباسی سے وی نیوز نے پوچھا کہ بطور وزیرِاعظم انہوں نے کونسے تحائف لیے تو انہوں نے بتایا کہ بیرون ملک دورے پر جاتے وقت یا کسی غیر ملکی سربراہ کے پاکستان آنے پر حکومتی سربراہان کو تحائف ملتے ہیں۔
‘وہ تحائف آپ (وزیرِاعظم) کو نہیں ملتے بلکہ دوسری حکومت یا شخص کی طرف سے آپ کے ملٹری سیکرٹری کو دیے جاتے ہیں۔ (ان تحائف) کو توشہ خانہ میں جمع کرا دیا جاتا ہے۔ وہ آپ کو خط لکھتے ہیں کہ جناب یہ چیز آپ کو تحفے میں آئی ہے آپ اس کو خریدنا چاہتے ہیں تو یہ رقم ہے۔ آپ وہ رقم ادا کرکے اور اگر آپ چاہیں تو وہ چیز دیکھ بھی سکتے ہیں۔ عام طور پر گھڑی ہوتی ہے۔ اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ اگر آپ وہ نہیں لیں گے تو توشہ خانے والے اس کو نیلام کر دیتے ہیں۔’
‘زندگی میں سب سے اہم لمحہ وزارتِ عظمی کا حصول نہیں تھا’
سابق وزیرِاعظم سے پوچھا گیا کہ ان کی سیاست کا سب سے کامیاب لمحہ کونسا تھا تو انہوں نے واضح کیا کہ وزارتِ عظمی کا حصول ان کی زندگی کا سب سے اہم ترین لمحہ نہیں تھی۔ ‘میرے خیال میں سیاسی طور پر جتنی عزت آج ہے میری اتنی سیاسی تاریخ میں نہیں تھی۔ جب ہم اپوزیشن میں رہے ہیں تو اس حوالے سے جہاں آپ جو حصہ ڈال سکتے ہیں میرے خیال سے وہی سب سے اہم لمحہ ہوتا ہے’۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف ریفرنس
یاد رہے کہ 5 ارکان اسمبلی کی ایما پر اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے گزشتہ سال اگست میں الیکشن کمیشن میں دائر ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔ آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان نے توشہ خانہ میں ملنے والے تحائف کے تنازع پر ایک غیر رسمی میڈیا گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ‘تحفے میرے ہیں اور میری مرضی ہے کہ انہیں رکھنا ہے یا نہیں’۔ عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس میں 7 ستمبر 2022 کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا جس کے مطابق یکم اگست 2018ء سے 31 دسمبر 2021ء کے دوران وزیرِاعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
21 اکتوبر 2022ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کو الزامات ثابت ہونے پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے میں کہا تھا ‘عمران خان کرپٹ پریکسٹس کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے انہیں آئین کے آرٹیکل 63 پی کے تحت نااہل قرار دیا جاتا ہے’۔ مختصر فیصلے میں عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔
اس کے بعد اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے سابق وزیرِاعظم عمران خان کے توشہ خانہ ریفرنس کے فوجداری کارروائی کیس میں ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے مسلسل عدم حاضری پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ عدالت نے 28 فروری کو عمران خان کو عدالت میں پیش ہونے کا آخری موقع دیا تھا کیونکہ عمران خان پر توشہ خانہ کیس میں فردِ جرم عائد کی جانی تھی۔ عمران خان نے ٹرائل کورٹ کو کچہری سے جوڈیشل کمپلیکس منتقل کرنے کی استدعا کی تھی لیکن عدالت نے استدعا مسترد کی تھی۔
عمران خان 28 فروری کو جوڈیشل کمپلیکس میں پیش ہوئے تھے لیکن کچہری نہیں گئے۔ عدالت نے گرفتار کرکے عمران خان کی 7 مارچ کی حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا تھا۔ 6 مارچ کو عدالت نے عمران خان کی وارنٹ منسوخی کی درخواست مسترد کردی تھی۔ عدالت نے گزشتہ روز عمران خان کے وارنٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ جاری کیا تھا۔ 28 فروری کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کرانے اسلام آباد پولیس لاہور بھی گئی تھی۔