مسٹر واٹسن! یہاں آئیں، میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ معروف سائنسدان گراہم بیل کے یہ الفاظ انسانی تاریخ کی پہلی ٹیلی فون کال کے آغاز میں کہے گئے۔ یہ کال 10 مارچ 1876 کو کی گئی اور اس کی دوسری طرف ان کے اسسٹنٹ تھامس واٹسن تھے۔ 2 روز بعد لیبارٹری کی نوٹ بک میں گراہم بیل نے اس کال کے حوالے سے لکھا کہ میں نے ماؤتھ پیس میں چیختے ہوئے یہ الفاظ کہے اور میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میرے اسسٹنٹ نے واپس آکر یہی الفاظ دہرا کر بتایا کہ انہوں نے میری آواز سن لی تھی۔
اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والے گراہم بیل کو عمومی طور پر ٹیلی فون کا موجد سمجھا جاتا ہے جس ایجاد نے آنے والے وقتوں میں مواصلات کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ گراہم بیل کی والدہ سماعت سے محروم تھیں اور ان کے والد ایسے افراد کی تعلیم سے منسلک تھے۔ بیل خود بھی اسی شعبے میں آئے اور اس حوالے سے تحقیق و تدریس میں خاصا کام کیا۔
پیٹنٹ کس نے رجسٹر کرایا؟
فروری 1876 کی 14 تاریخ کو امریکی پیٹنٹ آفس میں ٹیلی گراف میں مزید جدیدیت لانے کے حوالے سے پیٹنٹ رجسٹری کی 2 درخواستیں موصول ہوئیں مگر گراہم بیل کو اس معاملے میں سبقت ملی کہ ان کے وکیل نے کاغذات پہلے تیار کرکے جمع کرا دیے تھے۔ گراہم بیل کی درخواست جمع کرانے کے 2 گھنٹے بعد الیشا گرے کی درخواست جمع کرائی گئی تو اس کا نمبر 39 جبکہ گراہم بیل کی درخواست کا نمبر 5 تھا۔
اگلےماہ مارچ کی 7 تاریخ کو اس کا پیٹنٹ گراہم بیل کو دے دیا گیا جس کے 3 دن بعد انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کرکےدکھا دیا۔گراہم بیل کو پیٹنٹ ملنے کے بعد دیگر سائنسدانوں نے ان کے خلاف عدالتوں میں اپیلیں بھی کیں۔ اس سلسلے میں امریکی حکومت نے 1887 میں گراہم بیل سے یہ پیٹنٹ واپس بھی لے لیا تاہم سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد اس ایجاد کا سہرا گراہم بیل اپنے حق میں سجانے میں کامیاب ٹھہرے۔
ٹیلی فون کا اصل موجد کون ہے؟
ٹیلی فون کی ایجاد کے حوالے سے مختلف افراد کا دعویٰ موجود ہے۔ الیشیا گرے کے علاوہ اٹلی سے نقل مکانی کرکے امریکا آنے والے انتونیو میوکی بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔ انتونیو میوکی نے 1849 میں ایسے ٹیلی گراف پر کام کرنا شروع کیا تھا جو آواز کو دوسری جگہ پہنچا سکے۔ 1871 میں امریکی پیٹنٹ آفس میں انہوں نے ایک درخواست بھی دی جس میں کہا گیا کہ وہ اس کے آئیڈیا پر کام کر رہے تاہم خراب مالی حالات کے باعث وہ مکمل پیٹنٹ رجسٹر کرانے کی درخواست نہ دے سکے۔
امریکا کے علاوہ جرمنی اور دیگر ممالک بھی اسی عرصے میں ٹیلی گراف کو بہتر بنانے کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے تھے۔ اس حوالے سے 1976 میں ٹیلی فون ایجاد ہونے کی 100 سالہ تقریب منعقد کرانے والے اسمتھ سونین انسٹیٹیوٹ نے 8 سائنسدانوں کو اس ایجاد کا اہم کردار قرار دیا۔ ویسے تو اس موضوع پر بے تحاشا تحقیق اور عدالتی کارروائیاں ہوئیں اور آج بھی یہ معاملہ کچھ حد تک متنازع ہے تاہم گراہم بیل ٹیلی فون کے معاملے میں بازی اس لیے لے گئے کہ ان کی قائم کی گئی کمپنی نے بعد میں اس کا بڑا نیٹ ورک قائم کیا۔
ویسے اس حوالے سے ایک اور پہلو بھی دیکھا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ کیا گھریلو استعمال کی دیگر اشیا کا بھی کوئی ایک موجد ہے یا وہ سائنسی ارتقا کے نتیجے میں وجود میں آئیں۔
مثلاً ریفریجریٹر، واشنگ مشین اور سلائی مشین جیسی اشیا کا استعمال عرصہ دراز سے چلا آرہا تھا البتہ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ بہتری لائی گئی اور ان کی موجودہ شکل میں کئی افراد کا ہاتھ ہے۔ ایسے ہی ٹیلی گراف سے ٹیلی فون کی ایجاد تک کئی افراد نے کردار ادا کیا تاہم اس سلسلے میں آواز کو برقی سگنلز میں تبدیل کرکے دوسری جگہ پہنچانے والی تحقیق نے اس کی موجودہ شکل ترتیب دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
دوسری ٹیلی فون کال
سال 1877 میں گراہم بیل نے ٹیلی فون کمپنی قائم کی جو آج اے ٹی اینڈ ٹی کے نام سے جانی جاتی ہے جو اس وقت دنیا بھر کی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں میں ریونیو کے اعتبار سے بڑی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔
1915 میں گراہم بیل نے نیویارک شہر سے سان فرانسسکو میں پہلی بین البراعظمی فون کال کی تو یہ سننے کے لیے ان کے سابقہ اسسٹنٹ تھامس واٹسن سان فرانسسکو میں موجود تھے۔ گراہم بیل نے اپنا تاریخی جملہ دہرایا، مسٹر واٹسن! یہاں آئیں، میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ ساڑھے 5 ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر موجود تھامس واٹسن نے جواب دیا، مجھے وہاں آنے میں کم از کم 5 دن لگیں گے۔
ہیلو لفظ کا موجد کون تھا؟
کچھ عرصے قبل ایک جعلی میسج بہت زیادہ وائرل ہوا تھا جس کے مطابق ہیلو دراصل گراہم بیل کی گرل فرینڈ کا نام تھا اور گراہم بیل نے پہلی کال اپنی گرل فرینڈ کو ملائی تھی۔ کال شروع ہوتے ہی گراہم بیل نے اپنی گرل فرینڈ کا نام لیا اور یوں ہیلو لفظ کا استعمال شروع ہوگیا۔
منطقی اعتبار سے دیکھا جائے تو ممکن نہیں ہے کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی ٹیلی فون کال کی جا رہی ہو اور وہ کسی لیب کے بجائے باہر ہو اور ٹیلی فون کے دونوں جانب کوئی سائنسدان نہ ہوں بلکہ دوسری جانب ایک سائنسدان کی گرل فرینڈ ہو۔ خیر اس ایجاد کے وقت گراہم بیل کی گرل فرینڈ تو تھیں مگر ان کا نام ہیلو نہیں بلکہ ‘مابیل گارڈینر ہوبرڈ’ تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ 5 برس کی عمر میں قوت سماعت سے محروم ہوچکی تھیں۔ اب جو خاتون سن ہی نہیں سکتیں تو انہوں نے ٹیلی فون پر گفتگو کیسے کی ہوگی؟
خیر بات ہیلو کی ہو رہی تھی اور یہ لفظ اتنا پرانا بھی نہیں ہے۔ اس کا سب سے پرانا ریکارڈ ٹیلی فون کی ایجاد سے 5 دہائیاں قبل ملتا ہے اور اس سے ملتے جلتے الفاظ تعارفی کلمات کے طور پر استعمال ہوتے رہے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انہی الفاظ سے بگڑ کر ہیلو بنا ہوگا۔ بہرحال ٹیلی فون کال کے آغاز پر ہیلو کا استعمال کیسے شروع ہوا، اب یہ دیکھ لیتے ہیں۔
ٹیلی فون کی ایجاد کے ساتھ ہی یہ معاملہ بھی اٹھا کہ گفتگو کے آغاز میں پہلا لفظ کیا ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل نے آہوئے کے لفظ کو ترجیح دی۔ یہ لفظ دراصل بحری جہازوں کی آمد و رفت کے دوران دوسرے جہازوں کو متوجہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ دُور کھڑے شخص یا کسی دوسرے جہاز کے مسافر کو آہوئے کہہ کر پکارا جاتا تھا۔
گراہم بیل کا یہ لفظ تو عوامی سطح پر اتنا مقبول نہ ہوسکا البتہ ان کے حریف تھامس ایڈیسین نے ہیلو کا لفظ استعمال کرنے کی ترغیب دی جو مقبول ہوگیا۔ گراہم بیل تو تمام زندگی آہوئے کا لفظ استعمال کرتے رہے مگر تھامس ایڈیسین کا انتخاب اس معاملے میں بازی لے گیا اور آج بھی دنیا بھر میں اکثریتی فون کالز کے آغاز میں ہیلو ہی کہا جاتا ہے۔
وی نیوز کی پہلی کال
ہیلو اور ٹیلی فون کی کہانی تو ہوچکی ہے جس نے انسانی تاریخ کو بڑے پیمانے پر بدلا۔ اس کے بعد ریڈیو اور پھر ٹیلی ویژن کی ایجاد نے معلومات کے تبادلے میں انقلاب پیدا کیا اور آج ڈیجیٹل دور میں دنیا ان سب سے بھی کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ اخبار اور ٹی وی کے معتبر ترین نام مواصلات کے نت نئے ذرائع پر بھی اپنا سکہ جمانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں تاکہ وہ وقت کی دوڑ میں کہیں پیچھے نہ رہ جائیں۔ میڈیا کے اسی سفر میں ایک نئے سلسلے کا بھی آغاز ہوا ہے جس کی پہلی کال آپ ہیں۔ یہ فی الوقت ٹیلی فون کی پہلی کال جتنا موثر تو شاید نہ ہو مگر آپ کی آرا اور کام کرنے والوں کی محنت سے تاریخ اور مستقبل کا اہم حصہ بن سکتا ہے۔