خدا کرے میری ارض پاک پر اترے ۔۔۔۔

جمعرات 8 فروری 2024
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بالآخر آٹھ فروری کا دن آن پہنچا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت پاکستانی قوم ایک بار پھر اپنی قیادت منتخب کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنز پر موجود ہے۔ ہر فرد کا دل یقین کی اس دولت سے مالا مال ہے کہ آج اچھے نتائج سامنے آئیں گے، وہی لوگ منتخب ہوں گے جنھیں عوام پسند کریں گے۔

اللہ کرے کہ آج کا سارا انتخابی عمل بخیر و عافیت مکمل ہو۔ قوم کئی بحرانوں سے گزر کر اس مرحلے پر پہنچی ہے۔ اس دوران عام انتخابات ملتوی کرانے کی ہزار کوششیں کی گئیں لیکن قوم آٹھ فروری ہی کو عام انتخابات کے فیصلے پر اٹل رہی۔ اس دوران دہشت گردی کے واقعات بھی ہوئے، ابھی گزشتہ روز صوبہ بلوچستان کے علاقوں پشین اور قلعہ سیف اللہ میں 26 افراد جاں بحق ہوئے۔ اس سے پہلے بھی بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے صوبوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا کہ اس دہشت گردی کے نتیجے میں جمہوریت پٹڑی سے اتر جائے، تاہم سیاسی جماعتیں یومِ انتخاب کی طرف بڑھتی ہی چلی گئیں۔ ایک باشعور اور پختہ فکر قوم کا طرزعمل ایسا ہی ہوتا ہے۔

یقیناً آج کے عام انتخابات پر کچھ انگلیاں اٹھ رہی ہیں، بعض گروہوں کی طرف سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا شکوہ ہوتا رہا، جب نتائج آئیں گے تو بعض گروہ شکوے، شکایات اور احتجاج بھی کریں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک فطری امر ہوگا۔ تاہم اچھی بات یہی ہے کہ کسی بھی جماعت نے انتخابات کے بائیکاٹ کا نہیں سوچا۔ اس سے زیادہ میچورٹی اور کیا ہوگی!

اگر ایک ٹرین چلنے میں دیر کر رہی ہو، اس کی بوگیوں میں مسائل بے شمار ہوں تو اس ٹرین سے اتر جانے والے کو عقل مند کون کہے گا بھلا؟ ظاہر ہے کہ وہ اپنا ہی سفر کھوٹا کرے گا۔ اس سے پہلے کئی گروہوں نے چلتی ٹرین سے بھی چھلانگ لگائی، اللہ کا شکر ہے کہ اس بار کسی نے ٹرین سے اترنے کا فیصلہ نہ کیا۔

گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جناب بیرسٹر گوہر خان کا بیان بھی نظر سے گزرا کہ ’الیکشن کے بعد دھرنا دینے یا پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا‘۔۔۔۔۔ یہ ایک دانش مند رہنما کی پالیسی ہے۔ بلاشبہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین جناب عمران خان کی جانب سے بیرسٹر گوہر خان کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا فیصلہ بہترین ثابت ہوا۔ سخت آزمائش کے دور میں وہ جس انداز میں پارٹی کو لے کر چل رہے ہیں، قابل صد تحسین ہے۔

مسائل جیسے بھی ہوں، شکایات جس قدر بھی ہوں، سیاسی عمل میں شامل رہ کر ہی اپنے آپ کو بچایا جاسکتا ہے اور آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ بیرسٹر گوہر خان ایسا ہی کر رہے ہیں۔ وہ اپنی قوت کو بچا رہے ہیں، اور انتخابات کے بعد مزید قوت جمع کرنے کی حکمت عملی پر بھی عمل پیرا ہیں۔

قوم کا ایک بہت بڑا حصہ تمام تر تحفظات کے باوجود، انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے پر تیار ہے۔ حال ہی میں کثیر القومی مارکیٹ ریسرچ اور مشاورتی اپسوس گروپ‘ ایس اے ( انسٹی ٹیوٹ پبلک ڈی سونڈج ڈی اوپینیئن سکچر) پاکستان چیپٹر کے زیر اہتمام ہونے والے رائے عامہ کے ایک جائزے سے پتہ چلا ہے کہ مجموعی طور پر چھہتر فیصد پاکستانی انتخابی نتائج تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

 جائزے کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے 94 فیصد، پاکستان مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی پاکستان کے 87 ، 87 اور پاکستان تحریک انصاف کے 67 فیصد ووٹرز کا کہنا ہے کہ وہ 8 فروری 2024 کو ہونے والےعام انتخابات کے نتائج کو تسلیم کریں گے۔ اسی طرح تحریک لبیک پاکستان کے 91 فیصد ووٹرز نتائج کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اللہ کرے کہ تمام سیاسی گروہ اپنے ارادوں پر قائم و دائم رہیں اور ہر اُس سرگرمی سے گریز کریں جس کے نتیجے میں قوم کو بدترین بحران میں مبتلا ہونا پڑے۔ کسی بھی مسئلے پر احتجاج جمہوریت کا لازمی حصہ ہے لیکن احتجاج ایسا ہو جو اس انداز میں اپنے مقاصد حاصل کرے کہ عام آدمی کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔ امید کامل ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والا ہر گروہ اپنی روش سے خود ہی بیزار ہوچکا ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ گزشتہ ربع صدی سے ہر اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ ورنہ ہر دوسرے، تیسرے برس اسمبلیاں توڑ دی جاتی تھیں۔

اب ایسا لگتا ہے کہ حکومتیں بنانے اور بگاڑنے والے اپنے اصل کام کی طرف جانا چاہتے ہیں،  دوسری طرف سیاسی جماعتیں بھی باہم لڑتے لڑتے تھک چکی ہیں۔ اب سب نئے عہد کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ کرے کہ وہ اپنے ارادے پر ثابت قدم رہیں۔ اور اس سب کچھ کے نتیجے میں ملک میں سیاسی استحکام آئے، معیشت بہتر اور مضبوط ہو۔ اور پھر عام آدمی کی زندگی میں خوشحالی آئے۔

اللہ کرے کہ آج  کے عام انتخابات میں اچھا ٹرن آؤٹ ہو، بہت بڑی تعداد میں لوگ پولنگ اسٹیشنز پر پہنچیں، ووٹ کاسٹ کریں، ان امیدواروں کو اپنے اعتماد سے نوازیں جو باصلاحیت ہوں، قوم کو مشکلات سے نجات دلانے میں اپنا بہترین کردار ادا کریں، جو ہمیں ایک ایسے پاکستان کی طرف لے جائیں جہاں محبتیں ہی محبتیں ہوں، نفرتیں نام کو بھی نہ ہوں۔ کیونکہ ایسے ہی معاشرے پھلتے پھولتے ہیں، ترقی اور عروج کا سفر طے کرتے ہیں اور انھیں اندیشہ زوال نہیں ہوتا۔

مرحوم احمد ندیم قاسمی کی ایک شہرہ آفاق  نظم بلکہ دعا یاد آ رہی ہے:

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp