وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نیب آرڈیننس میں ترامیم کی گئی ہیں کیوں کہ جو مقدمات نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں رہے تھے وہ متعلقہ اداروں کو جانے تھے اور قومی احتساب بیورو کو تو صرف میگا کرپشن کیسز کومنطقی انجام تک پہنچانے کے لیے رکھا گیا تھا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ اس سے قبل تو یہ ہوتا تھا کہ نیب میں سیاسی بنیادوں پر مقدمات بنادیے جاتے تھے اور پھر ان کے فیصلے نہیں آتے تھے۔ نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت احتساب عدالت نیب کے دائرہ اختیار میں نہ آنے والے کیسز کو متعلقہ فورم پر بھجواسکتی ہے اور اس ترمیم کے تحت چیئرمین نیب کی عدم موجودگی میں ڈپٹی چیئرمین کو بطور قائم مقام چیئرمین نیب مکمل اختیارات حاصل ہوں گے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کے دیگر قائدین نیب کے پرانے قانون کے تحت بری ہوئے، دفعہ 4 کی تشریح میں نیب کے افسران کو مسئلہ آرہا تھا،نیب آرڈیننس کی شق 4 اور 5 میں ترمیم کی گئی ہے۔
وفاقی وزیرقانون کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم کے تحت عدالت کو اختیار دیا گیا ہے کہ جو مقدمہ نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا وہ اسے ایف آئی اے، اینٹی کرپشن سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو بھجوایاجاسکتاہے، متعلقہ تفتیشی ادارہ اس کیس سے متعلق موجودہ شواہد یا ازسرنو بھی تحقیقات کر سکتا ہےاور اس کواس حوالے سے اختیارحاصل ہوگا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنے کیسز معاف نہیں کرائے کیوں کہ کوئی بھی کیس عدالت ہی جائزہ لے کر بند کرنے کاحکم دے سکتی ہے اور اب 50 کروڑ سے کم کرپشن والے کیسز متعلقہ فورمز پر ہی جائیں گے،عمران خان نے یہی ترامیم اپنے دور میں آرڈیننس کے ذریعے کی تھیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پارلیمان کااجلاس ہوتے ہی آرڈیننس بل کی صورت میں پیش کردیاجائے گا اورابھی چونکہ اجلاس نہیں ہورہا تھا اس لیے آرڈیننس جاری کرنے کے لیے بھجوادیاہے،پراسیکیوٹر جنرل کے کہنے پر وزیراعظم نے ترامیم کاٹاسک دیاتھا۔
اعظم نذیر تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ نیب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی تقرری کے لیے گریڈ 21 کا سول سرونٹ،ریٹائرمیجر جنرل یا جج ہونے کی اہلیت رکھی گئی ہے۔
وفاقی وزیرقانون کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سینئرجج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف قابل اصلاح نظرثانی واپس لینے میں قانونی نکات حائل ہیں اور یہ آئندہ کچھ دنوں میں واپس لے لی جائے گی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ میں نے اس حوالے سے ابھی قانون کامطالعہ نہیں کیااوریہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ادارے کے باہر کوئی شکایت کربھی سکتا ہے یانہیں،جس نے بھی حلف کی خلاف ورزی کی ہو ا سے عبرت کا نشان بنانا چاہیے۔
وفاقی وزیرقانون کایہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعظم شہبازشریف نے توشہ خانہ سے متعلق خواجہ آصف کی سربراہی میں کمیٹی بنائی تھی اور کابینہ ڈویژن میں توشہ خانہ کا 2000تک کاریکارڈ موجود ہے اس میں زیادہ ترریکارڈ سول بیوروکریسی اور سیاستدانوں کا ہے جو بلاتخصیص ویب سائٹ پر آویزاں کردیاجائے گا،ہم اس معاملہ میں نیک نیتی سے کام کررہے ہیں۔