دادا کے نامعلوم دوست

ہفتہ 10 فروری 2024
author image

اسامہ خواجہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہاں کی تمام سڑکیں، یہ جتنی سولنگ، یہ جو بجلی ہے، یہ سب میرے دادا مرحوم کی بنائی ہوئی ہے۔ تالیاں اور پھر نعرے۔ اس کے بعد کسی نے کوئی کام کیا، نہ کوئی مڑ کے آیا۔ اس کے بعد ‘گھوڑا کیسے بھاگتا ہے’۔۔ دگڑ، دگڑ، دگڑ، دگڑ، ختم شد۔

بڑی گاڑیاں اور خوبصورت چہرے یہاں سبھی کو اچھے لگتے ہیں۔ سوشل میڈیا دیکھیں تو لگتا ہے سبھی کے پاس دل فریب چہرے اور لمبی چوڑی گاڑیاں ہیں۔ روز نیا مداری میدان میں اینٹری ڈالتا ہے اور کبھی کورس اور کبھی عوامی خدمت کے نام پر ہمارے سامنے ٹرک کی ایک نئی بتی متعارف کرا دیتا ہے۔

موجودہ انتخابی مشق میں اگر کسی نے میدان مارا ہے، تو وہ اڈیالہ کا قیدی یا گوالمنڈی کا کوئی بزنس مین نہیں۔ بلکہ امریکہ پلٹ نوجوان سیاسی رہنما ہیں، جنھوں نے انداز بیان اور جارحانہ طرز تقریر سے ملک کے طول و عرض میں پھیلے سوشل میڈیائی صارفین کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔

اگر 8 فروری کی بجائے انتخابات دو، چار دن یا مہینہ مزید ملتوی ہو جاتے تو سینیئر تجزیہ کاروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ محترمہ وزارت عظمی کی بہترین اُمیدوار تھیں۔ کپتان کے بعد شہباز شریف نے اگرچہ تقریر کے عَلم کو کسی نہ کسی طرح اٹھانے کی کوشش کی تھی، مگر اس کو مغربی اور اسلامی ٹچ صحیح معنوں میں دوبارہ نگران دور میں ہی مل پایا تھا۔

وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ جب تقریر کرتے تھے (آج کل نہیں کی اس لیے ‘تھے’ لکھا ہے) تو یوں لگتا تھا جیسے مشرق و مغرب نے اتحاد کر لیا ہے۔ اب ظاہر ہے مہربانوں کی مہربانی تھی، جو ہمیں اس قدر چاشنی سے بھری موسیقی سننے کو ملی۔ لیکن آخر کب تک یہ موسیقی جاری رہتی؟ کسی نہ کسی کو تو عوامی حلقوں سے اٹھ کر ایوان اقتدار کی مسند سنبھالنا تھی۔

ایسے میں ‘نظام قدرت’ نے عجب انتظام کیا اور پنجاب کے دور افتادہ بلکہ پسماندہ علاقے میں ایک نئی دختر مشرق کو مغرب سے طلوع کرایا۔ فیس بک کھولیں یا پھر انھیں تلاش کرتے ٹک ٹاک پر پہنچیں ہر طرف ملین کی تعداد میں برستے ویوز کی دھوم ہے۔ کوئی اور ہے، جو ان کے جیسی ‘اسپیچ’ کر کے دکھائے۔

بجلی کی ایجاد سے کھمبے کی تنصیب تک اور بلب کی ٹمٹماتی روشنی سے فضا میں قلانچیں بھرتے طیارے، یہ سب انھی کے دادا کی مرہون منت تھا۔ مسلم لیگ بنانے کا آئیڈیا کس کی دین تھا؟ پاکستان کی تعمیر کس فیکٹری کی اینٹوں سے کی گئی؟ پہلا، دوسرا بلکہ موجودہ آئین کس نے ترتیب دیا۔ بھارت کے دانت کھٹے کرنے کے لیے ایٹمی پروگرام کا منصوبہ کس نے پیش کیا؟ یہ نہری نظام، یہ موٹروے یہ سی پیک اور ان گنت منصوبے ہیں جو آپ روزانہ دیکھتے، سنتے، سونگھتے اور محسوس کرتے ہوں گے۔

دوسری طرف چلتے ہیں، چارپائی کس نے ایجاد کی۔ کرسی کے پائے کس نے بنائے؟ پانی کی بوتل کا اسٹیکر اتارنا کس نے سکھایا، جوس والے ڈبے میں پھوک بھر کے پھاڑنا کس نے سکھایا، موسیقی کے سُر تال کس کی دریافت ہیں، بحر ظلمات میں گھوڑے کس نے اُڑائے۔ 9 مئی کو چھوڑ کر اس ملک میں کون سا کام ہے، جس کے پیچھے مرحوم کا ہاتھ نہیں ہے۔

واپس آئیں، ٹھنڈ بڑھ رہی ہے۔ یہ تحریر، بلکہ تکلیف جس انٹرنیٹ کے صدقے آپ پڑھ رہے ہیں اس کے ٹاور کس نے جیب سے پیسے دے کر لگوائے؟ ظاہر ہے، اسی ہستی نے جن کے دوستوں نے اب کشتی پار لگانی تھی۔

تو ظالمو،تمہاری ناک میں خاک، کیا مفلوک الحال دوستوں کی قیمتی رہنما جو پیدل چل کر امریکہ سے تمہیں مہنگی گاڑیاں دکھانے آئی۔ تم غریبوں کی ٹوٹی پھوٹی چارپائیوں پر بیٹھی۔ جس نے تمہارے سامنے خطاب کیا، تمہارے شکوے سنے، تمھیں سنایا۔ تمہاری کالے صابن سے دھلی پیالیوں میں چائے پی۔ گندی، مندی گلیوں سے گزری۔ تمھاری محرومیوں کا ذکر چھیڑا، پھر مہنگے کیمروں سے تمہاری ویڈیوز بنا کر دنیا کو تمھارا تاریک چہرا دکھایا۔

کیا ایسی گوہر نایاب رہنما تم سے اتنی بھی برداشت نہ ہوئی کہ اسے حکومت سازی کے عمل میں ہانڈی بنانے کو کہتے۔ تم چاہتے تو اسے بھی اسلام آباد سے ملتان تک پھیلے کامیاب اُمید واروں کی صف میں جگہ ‘نواز’ سکتے تھے۔ دادا کے انجان دوست چاہتے تو ساٹھ ہزار کی کمی کو ایک لاکھ کی لیڈ میں بدل سکتے تھے۔ لیکن نجانے انہوں نے اس نہتی امیدوار میں خطرے کی کون سی بو سونگھی، جو ایک سردار کو فوقیت دے ڈالی۔

مجھے ‘علی پور’ والوں پر شک نہیں، لیکن یہ جواسلام پور کے دائیں بائیں موضع ہیں یہاں ضرور کسی نے گڑ بڑ کی ہے۔

ارے ظالمو، کیا یہ روشن چہرہ اتنا بھی حق نہیں رکھتا تھا کہ اسے وزارت عظمی نہ سہی، کوئی چھوٹی موٹی وزارت ہی عطا کر دی جاتی۔ جہاں نوجوانان پاکستان کو ‘مقدس کلمات پڑھ کر جھوٹ بولنا’ سکھایا جاتا۔ قوم کا مستقبل بھی محفوظ ہو جاتا اور سوشل میڈیائی چینلز کی آمدن کے نئے حکومتی بلکہ ریاستی ذرائع بھی چل پڑتے۔

میرا ماننا ہے کہ ابھی بھی گھڑی کی دونوں سوئیوں نے 12 نہیں بجائے۔ وقت ہے کہ، خصوصی نشستوں کے درمیان ایک باوقار کرسی یا پھر صوفہ نصب کیا جائے۔ اور اس پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے لوٹنے والی قوم کی بہادر ‘سپوتنی’ کو بٹھا کر جلد از جلد قوم کے گناہوں کی تلافی کی جائے۔ اہل علاقہ کی خدمت کے لیے اُن کو دعوت دی جائے کیونکہ اس وقت پاکستانیوں کے پاس 2 ہی نمبر ہیں ایک میاں صاحب والا اور دوسرا یہ، جس پر کال کر کے آپ اپنے تمام کام کروا سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وی نیوز کے ساتھ بطور ایڈیٹر پلاننگ منسلک ہیں۔ اس سے قبل بھی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا کے اداروں کے لیے کام کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp