ناٹک پرانا چل رہا ہے

اتوار 11 فروری 2024
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کم از کم الیکشن کے انعقاد کے بعد اس ابہام کا تو قلع قمع ہوا کہ آیا الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں۔

لیکن اس بار بھی ووٹنگ کے بعد 24 گھنٹے گزرنے کے باوجود الیکشن کے 100 فیصد نتائج کیوں سامنے نہیں آئے؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کا جواب ’انتظار فرمایے‘ ہی دیا جا سکتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، پی ٹی وی کے پروگراموں کے دوران ہونے والی تکنیکی خرابیوں کے پیش نظر ہم اکثر ٹی وی پر یہ لکھا دیکھ کر سوائے پیچ و تاب کھانے کے کچھ نہیں کر پاتے رہے۔ سو غالباً آج بھی ملک کی یہی صورتحال ہے۔ 8 فروری 2024 کے الیکشن میں کئی حیران کن اور بیشتر غیر متوقع نتائج سامنے آئے ہیں۔

حالیہ پاکستان کی سیاست میں اس وقت نمایاں 3 بڑی جماعتیں ہیں اور تینوں جماعتوں کے ساتھ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا کردار کم و بیش ایک جیسا ہی رہا ہے۔ بقول شاعر

نئے کردار آتے جا رہے ہیں

مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے

چلیں زرا ماضی پر ایک نظر ڈالیں

عوام کے وو ٹ کے ذریعے برسراقتدار آنے والے کسی وزیراعظم کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ کسی کو گولی مار دی گئی۔ کسی کو جیل بھیج دیا تو کسی کو جلاوطن کردیا۔

پچھلے 60 سال سے عوام کو ایک ہی فلم دکھائی جارہی ہے کبھی یہ فلم بلیک اینڈ وائٹ ہوتی ہے تو کبھی رنگین۔

ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد ضیاالحق کی 11 سالہ آمریت میں پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کے لیے پوری حکومتی مشینری حرکت میں رہی۔ نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو نے سول سوسائٹی اور اپنی جماعت کے کارکنوں کے ہمراہ سڑکوں پر احتجاج کرنے پر غیر انسانی سلوک سہا۔ پارٹی کے کارکنان کو جھوٹے مقدموں میں پھنسا کر جیل بھیجا گیا۔ سرعام کوڑے مارے گئے اور بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ کئی کارکن جان بچا کر روپوش ہوگئے تو سینکڑوں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے گئے۔ اس وقت ہمارے کرتا دھرتاؤں کا اولین مقصد ایک عوامی لیڈر اور اس کی پارٹی کو نیست و نابود کرنا تھا۔

کئی سال کی جلاوطنی کے بعد پیپلزپارٹی میں بینظیر بھٹو ایک نئی قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں اور ہر سو چھا گئیں۔ وہی پیپلز پارٹی جسے مارشل لا کے دور میں پوری طرح کچل دیا گیا تھا اور کچلنے والے سمجھتے تھے کہ اب یہ جماعت کبھی سر اٹھا نہیں پائے گی، لیکن دنیا نے دیکھا کہ بینظیر کی آمد پر عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے جس طرح اپنی لیڈر کا والہانہ استقبال کیا اس کی نظیر آج تک نہیں ملتی۔

ضیا کے 11 سالہ آمرانہ دور کے اختتام کے بعد 1988 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے پھر سے میدان مارا اور بینظیر پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔

طاقتور حلقے منہ کی کھانے کے باوجود پھر اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوگئے۔

اس بار مسلم لیگ کو پیپلز پارٹی کے مدمقابل لایا گیا۔ آئی جے آئی بنائی گئی تاکہ پھر سے جمہوری عمل کو سبوتاژ کیا جاسکے اور عوام کے ووٹ کے حق کو دوبارہ پیروں تلے روندا جائے۔

بینظیر کے خلاف بھی وہی ہتھکنڈے، وہی زبان اور وہی الزامات استمعال کیے گئے جو ایک آمر نے ماضی میں محترمہ فاطمہ جناح کے لیے کیے گئے تھے۔

محترمہ بینظیر کی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ کی حکومتیں بنائی گئیں پھر توڑی گئیں اور یہ چوہے بلی کا کھیل کئی ادوار پر محیط رہا۔

ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ جب نواز شریف بھی ایک پاپولر سیاستدان بن کر ابھرے اور جیسے جیسے عوام میں ان کی مقبولیت بڑھنے لگی ویسے ویسے ہمارے مقتدرہ حلقوں کی نیندیں اڑنے لگیں۔

1997 کے الیکشن میں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے جیت کر وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوئے۔ نواز شریف خود کو طاقتور لیڈر سمجھنے جیسے جرم کا ارتکاب کر بیٹھے اور کئی ایسے اقدامات کیے جو سراسر مقتدرہ حلقوں پر ایک وار سمجھے گئے۔ 12 اکتوبر 1999 میں ملک کو ایک بار پھر مارشل لا کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دھکیل دیا گیا۔

جنرل پرویز مشرف نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ نواز شریف اور تقریباً پوری کابینہ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا اور چند ماہ بعد جلاوطن کر دیا گیا۔

جس طرح 1977 کے بعد پیپلز پارٹی کا صفایا کیا گیا تھا اسی طرز پر مسلم لیگ کو بھی عبرت کا نشانہ بنانے سے قطعی گریز نہیں کیا گیا۔

لیکن کیا ہوا وہی دھاک کے تین پات۔ میثاق جمہوریت کے ذریعے مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے ہوا اور انہوں نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کیا۔

اس سیاسی تدبیر کا ہی نتیجہ تھا کہ ایک آمر کر 9 سال بعد گھر جانا پڑا۔ لیکن بی بی کی سیاسی پختگی اور تدبر اس بار بھی ان حلقوں کے حلق سے نہ اتر سکا جنہوں نے بی بی کے باپ کو تختہ دار تک پہنچایا تھا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد 2008 کے الیکشن کے بعد مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے مل کر حکومت بنائی لیکن جلد مسلم لیگ نے اپنے رستے الگ کر لیے۔

ملک کے سیاسی، معاشی حالات بہتر ہوتے جا رہے تھے اور جمہوری نظام بھی قدم جمانے لگا تھا بے شک بہترین نہ تھا لیکن بہتری کی طرف گامزن ضرور تھا اور آزادانہ طور پر منتخب اسمبلی نے پہلی مرتبہ اپنی مدت مکمل کی۔

اسی کا تسلسل ہی تھا کہ مسلم لیگ نے 2013 کے الیکشن میں جیت کر حکومت بنائی لیکن جمہوریت کی ٹرین کو پھر پٹری سے اتارنے کا منصوبہ پس پردہ تیار تھا۔ اس بار کرپشن کا راگ الاپا گیا اور پاناما کیس سامنے آیا جس کے نتیجے میں پھر سے ملک کی معاشی اور اقتصادی ترقی کا پہیہ جام ہو کر رہ گیا۔ اس بار تحریک انصاف کو پال پوس کر عوام کے سامنے لایا گیا۔ پوری جماعت اور اس کے لیڈر کی بھرپور معاونت کی گئی اور کھل کر دھاندلی کر کے اس پراجیکٹ کو حکومت سے نوازا گیا۔

تحریک انصاف کا دور حکومت اکیسویں صدی کا بدترین دور کہا جاسکتا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف اور اس کے نمائندوں کو مقتدرہ حلقوں کی کھلے عام آشیرواد حاصل تھی لیکن یہ بھی زیادہ عرصہ وارے نہیں آیا۔ سو آج عمران خان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے جسے ہمارے اداروں کے کرتا دھرتاؤں نے پچھلے انتخابات میں بڑے طمطراق کے ساتھ لانچ کیا تھا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ان حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کے تمام کارکنان کو آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن میں حصہ لینا پڑا ہے۔ حتیٰ کہ ان سے انتخابی نشان تک چھین لیا گیا۔ یعنی کل کے بادشاہ آج کے فقیر۔

یہ کھیل ہم سب کے لیے نیا نہیں اور ہم یہ بھی دیکھتے آئے ہیں کہ جبراً کسی بھی سیاسی جماعت کو جڑ سے اکھاڑا نہیں جاسکتا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاست پر آج بھی آسیب کا سایہ ہے۔

سیاست کرنا سیاستدانوں کا کام ہے لیکن اداروں کی مسلسل مداخلت نے سیاست اور پورے جمہوری نظام سے عوام کو متنفر کر دیا ہے۔ اس میں ہمارے سیاستدانوں کی بھی غلطیوں اور کوتاہیوں سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اگر ترقی کے دھارے کے ساتھ بہنا ہے تو طاقتور اداروں کو جمہوری اور سیاسی نظام سے خود کو الگ رکھنا ہوگا۔

ورنہ یہ کھیل نجانے کب تک یونہی چلتا رہے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp