پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین گوہر خان نے کہا ہے کہ پارٹی چھوڑنے والوں کا حشر سب نے دیکھ لیا، وفاداری کے لیے کسی سے استعفیٰ مانگا ہے نا ہی حلف لیا ہے تاہم وسیم قادر کے پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کی مذمت کرتے ہیں، وفاداری تبدیل کرنے پر ان کے خلاف عدالت جائیں گے۔
ایک انٹرویو میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر خان نے وسیم قادر کے مسلم لیگ ن میں شمولیت کے حوالے کہا کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑا ہے، وسیم قادر کے ن لیگ میں شامل ہونے کی وجہ معلوم کروں گا،انہوں نے انتخابات پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے لڑے تھے، اس لیے ان کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے، باقی سارے امیدوار ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں، وہ کہیں نہیں جائیں گے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن سے قبل انتخابی نشان نہ ملنے پر خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ انتخابات کے بعد کچھ لوگ اپنی وفاداریاں تبدیل کریں گے۔ وسیم قادر پارٹی کے انتہائی وفادار کارکن تھے، پارٹی میں ان کی بڑی خدمات تھیں۔
گوہر خان نے کہا کہ لوگوں نے دیکھ لیا کہ جو لوگ اپنے مینڈیٹ سے وفاداری نہیں کرتے ان کا انجام کیا ہوتا ہے، یہ بہت غلط روایت ہے کہ آپ جس پارٹی سے الیکشن لڑیں اور اس پارٹی کو عوام مینڈیٹ دے اور آپ چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں چلے جائیں۔
محمود خان مسترد ہوئے، پرویز خٹک مسترد ہوئے، یہ لوگ واپس اپنے حلقوں میں نہیں جا پائیں گے۔ مجھے تفصیل معلوم نہیں کہ وسیم قادر کیوں شامل ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ان باتوں میں کوئی صداقت نہیں کہ پی ٹی آئی اپنے امیدواروں کو وفاداریاں تبدیل کرنے سے روکنے کے لیے ان سے حلف نامے اور استعفے لے رہی ہے۔ گوہر خان نے کہا کہ ہم نے کسی کے ذریعے کوئی حلف نامے یا استعفے نہیں مانگے۔
ہم نے کور کمیٹی کے اجلاس میں کامیاب اُمیدواروں سے رابطے کے لیے کچھ لوگوں کی ذمہ داریاں لگائی تھیں لیکن اسعفے مانگنے یا حلف لینے کا کوئی ارادہ ہے نا ہی ایسا کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ ترامیدوار ہمارے ساتھ ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ہی وفادار رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام نے نواز شریف کے ساتھ کی جانے والی تمام ڈیلوں کو مسترد کر دیا ہے۔
ابھی تک کسی جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے ابھی تک کسی جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا، جماعت اسلامی کے حوالے سے نیوز چینل پر ٹیکر دیکھا تھا لیکن ہم نے جماعت اسلامی سے اس سلسلے میں کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔
کل پرسوں تک اس کا فیصلہ کریں گے، اس کا فیصلہ عمران خان ہی کریں گے، حکومت سازی میں جانے کے لیے آپ کو کسی بھی جماعت میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
خیبر پختونخوا میں ہمیں دو تہائی اکثریت ملی ہے، وہاں ہم حکومت منائیں گے، مخصوص نشستوں کے لیے ہمیں یقیناً کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہو گا۔
وفاق میں بھی ہماری نشستوں کے تناسب سے ہماری 30 مخصوص نشستیں بنتی ہیں جو ہمیں ملنی چاہیں۔ قانونی طور پر ایسا نہیں ہے کہ اسمبلی میں موجود کسی سیاسی پارٹی میں ہی آپ نے شامل ہونا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس جماعت میں جا سکتے ہیں جس کے پاس کوئی انتخابی نشان ہے۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ملنے سے بہتر ہے ہم اپوزیشن میں بیٹھیں
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد بنائیں گے نا ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ، ہماری پہلی کوشش ہو گی کہ ہم اپنی مخصوص نشستیں حاصل کر سکیں اور پھر حکومت بنائیں۔ اس کےلیے ہم بھرپور کوشش کریں گے لیکن پھر بھی اگر ناکامی ہوئی تو اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔
مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ملنے سے بہتر اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کریں گے، ابھی تو ہمارا مطالبہ ہے کہ ہم نے انتخابات میں اکثریت حاصل کی ہے، اس لیے حکومت بھی ہماری بننی چاہیے۔
احتجاج یا دھرنا نہیں دیں گے، انصاف کے لیے عدالت جائیں گے
دھاندلی کے خلاف احتجاج اور دھرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ ہم پارلیمان میں جائیں گے، دھرنا یا احتجاج نہیں کریں گے تاہم عوام کے مینڈیٹ کو چوری ہونے سے روکنے کے لیے ہر جگہ عدالتوں میں جائیں گے اور اپنے حق کے لیے قانونی جنگ لڑیں گے۔
آرمی چیف کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں
ایک اور سوال کے جواب میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم آرمی چیف کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں، ہم تو پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ سیز فائر ہونا چاہیے اور ملک کو آگے لے جانے کے لیے مل جل کر حل ڈھونڈنا چاہیے، لیکن اس وقت تو ہم متاثرہ پارٹی ہیں، ہمارے مینڈیٹ کو تو تسلیم کیا جائے، وہ شخص وکٹری سپیچ کر رہا ہے جس کی 50 سیٹیں بھی نہیں ہیں۔