پاکستان کی سیاست میں سیاسی، معاشی اور ادارہ جاتی استحکام کم اور محاز آرائی، بد اعتمادی اور سیاسی دشمنی کا پہلو نمایاں ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سیاست کا منظر نامہ ہمیں مسائل کے حل کی بجائے مزید مسائل میں الجھا رہا ہے بلکہ حقیقی معنوں میں بند گلی میں دھکیل رہا ہے۔اس کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر نہیں، بلکہ سیاسی اور ادارہ جاتی سطح پر موجود فیصلہ سازی سے جڑی تمام قیادت اس کی ذمہ دار ہے۔کیونکہ جو کچھ بربادی کی صورت میں ہو رہا ہے تو یہ کھیل کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوا بلکہ ہر فریق نے اس میں کم یا زیادہ اپنا حصہ ڈالا ہے۔ یہ بنیادی نقطہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا بحران محض سیاسی یا معاشی نوعیت کا نہیں بلکہ حقیقی سطح پر ہم ایک بڑے ریاستی بحران سے گزر رہے ہیں۔ ایسا بحران جہاں سیاست، معیشت اور ادارہ جاتی سطح پر ٹکراؤ کا ماحول ہے اور کوئی بھی فریق ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ طاقت کی اس لڑائی میں ہم قومی یا عوامی مفادات پر مبنی سیاست کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خرابی کے ذمہ دار ہم نہیں بلکہ دوسرا فریق ہے۔
یہ جو ہمارا داخلی عدم استحکام ہے اس نے جہاں ہمیں داخلی سیاست میں تنہائی دی ہے وہیں ہم علاقائی اور عالمی سیاست میں بھی وہ کچھ نہیں کر سکے جو ہمیں کرنا چاہیے تھا۔ ایک عمومی منطق یہ پیش کی جاتی ہے کہ اگر آپ داخلی سیاست اور معیشت میں مضبوط ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں آپ علاقائی اور عالمی سیاست سے جڑے معاملات میں اپنے لیے محفوظ راستہ تلاش کرتے ہیں۔ مگر موجودہ صورتحال میں ہمارے داخلی مسائل نے غیروں کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ ہم پر دباؤ کی سیاست بڑھا کر اپنے مفادات کی سیاست کو تقویت دیں یا وہ اپنے فیصلے ہم پر مسلط کر سکیں۔ اس لیے جو خرابیاں یہاں ملکی سطح پر موجود ہیں ان کا ضرور علاقائی یا عالمی تجزیہ یا غیر ملکی طاقتوں یا ہمسائے کی سطح پر ممالک کی بنیاد پر تجزیہ کریں، مگر خود بھی اپنا جائزہ لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ان خرابیوں ہیں کو پیدا کرنے میں خود ہمارا اپنا کیا رویہ ہے اور ہم خود کتنے ذمہ دار ہیں۔کیونکہ جب تک ہم اپنا داخلی احتساب یا تجزیہ نہیں کریں گے درست سمت کی طرف بڑھنا بھی تقریباً ناممکن ہوگا۔
مہذہب معاشروں کی کامیابی کا راز ذمہ دار ریاستوں کے طرز عمل میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ ذمہ دار ریاستیں لوگوں پر انفرادی انحصار کی بجائے خود کو اداروں کی بالادستی کے ساتھ جوڑتی ہیں۔ جو بھی ریاست آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرے گی وہی آج کی دنیا میں خود کو ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کر سکتی ہے۔ لیکن ہمارے جیسے ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ یہاں آئین و قانون یا اداروں کے مقابلے میں افراد کی بالادستی ہے اور انہی طاقتور افراد، خاندان یا گروہوں کے درمیان آئین اور قانون خود کو بے بس پاتا ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم آئین اور قانون کی تشریح بھی اپنے اپنے سیاسی یا مالی مفادات کی بنیاد پر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو آئین و قانون کی تشریح ہم کررہے ہیں وہی درست ہے۔ جو لوگ قانون اور آئین پامال کرتے ہیں یا آئین و قانون کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں وہ عملی طور پر سیاست، جمہوریت، پارلیمانی بالادستی، قانون اور آئین کوایک بڑے ’سیاسی ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ہر طبقہ کے نزدیک اگر ان کے مفادات کو چیلنج کیا جائے یا ان کو آئین اور قانون کے تابع کیا جائے تو ہمارے جمہوری و سیاسی نظام، معاشی نظام، میڈیا کی آزادی، قانون کی بالادستی یا قومی سیکیورٹی کے مفادات کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔کرپشن کی سیاست کو بھی ملکی سطح پر ایک بڑے سیاسی بیانیہ کی بنیاد پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے میں کون شفافیت کی سیاست کرے گا اور کون شفاف نظام کو یقینی بنائے گا۔
سیاست اور جمہوریت عمومی طور پر آگے بڑھنے کا راستہ پیدا کرتی ہے اور جو بھی بند گلی یا راستے ہوتے ہیں ان میں سے محفوظ راستہ کی تلاش ہی اس کا شیوہ ہوتا ہے۔ مگر ہم نے طے کر لیا ہے کہ قومی سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون کے مقابلے میں ہمارے ذاتی مفادات کی اہمیت زیادہ ہے اور اس پر ہم قومی مفادات کو قربان کرسکتے ہیں۔ ایک طرف سیاسی جماعتوں کے درمیان غیر جمہوری سیاسی ڈھانچے اور طرز عمل یا کمزور جماعتی نظام ہے تو دوسری طرف سیاست دانوں اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان جاری آنکھ مچولی کا کھیل بھی ہماری ترقی میں بڑی رکاوٹ پیدا کررہا ہے۔ سیاسی اور جمہوری نظام میں سیاسی انجینئرنگ کا کھیل، مرضی کی حکومتیں بنانا، بگاڑنا اور توڑنا یا انتخابات کے نتائج کو اپنے حق میں تبدیل کرنا یا سیاسی جماعتوں کو دباؤ میں لاکر اپنے مفادات کے تحت آگے بڑھنے کی سوچ اور فکر نے بھی جمہوری نظام کو کمزور کیا ہے۔اس میں جہاں بڑا قصور اسٹیبلیشمنٹ یا عدلیہ کا ہے وہیں ہم سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے کرداروں کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے جو ان بڑی قوتوں کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں کندھا پیش کرتے ہیں۔
ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنی مرضی کے نتائج درکار ہیں۔ اگر انتخابات کسی کے حق میں ہوں تو انتخابات شفاف قرار دیے جاتے اور شکست کی صورت میں دھاندلی کا الزام عائد ہوتا ہے۔ یہی کچھ عدالتی معاملات کے ساتھ ہے کہ فیصلہ حق میں ہو تو عدلیہ آزاد ہے نہیں تو اس پر بھی پسند و ناپسند کے الزامات لگا دیے جاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ یا ادارے ساتھ دیں تو وہ محبِ وطن اور اگر وہ کسی اور کی حمایت کریں تو جانبدار اور ملک دشمنی کے سے الزامات عائد کر دیے جاتے ہیں۔ ہم مجموعی طور پر مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے مسائل بڑھانے میں حصہ دار بن گئے ہیں۔ ماضی میں ہم نے مذہبی انتہا پسندی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی، لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ سطح پر جو تقسیم ہے اس میں ایک نیا اضافہ سیاسی تقسیم کا خوفناک حد تک بڑھ جانا ہے۔ سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کی جنگ نے اس سیاسی تقسیم کو گہرا کر دیا ہے۔ نتیجتاً سیاست میں دشمنی کا پہلو نمایاں ہو رہا ہے۔ دراصل ہم عدم برداشت کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں جہاں ہم کسی کو بھی مختلف نقطۂ نظر کی بنیاد پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کھیل کے بگاڑ کی براۂ راست ذمہ دار ہماری مجموعی قیادت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم ان مسائل سے کیسے نکل سکیں گے؟ اصولی طور پر تو ہمیں ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے اور مفاہمت کی سیاست کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں سیاسی، سماجی، معاشی، قانونی اور ادارہ جاتی سطح پر ایک بڑے روڈ میپ کی ضرورت ہے۔ یہ روڈ میپ کم از کم دس برس کے قومی خد و خال کو نمایاں کرتا ہو۔ اس میں سیاسی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کو بنیاد بنانا اور اس کے لیے نئے امکانات پیدا کرنا بالخصوص علاقائی ممالک کے ساتھ تنازعات، ٹکراؤ اور جنگوں میں حصہ دار بننے کی بجائے معاشی ترقی کے عمل میں حصہ دار بننا شامل ہے۔ اس میں بھارت اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی بہتری بھی ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان معیشت کی ترقی پر ایک واضح میثاق ہو جو ایک دوسرے کو معاشی معاملات میں جذباتیت اور الزام تراشی کی سیاست سے روک کر ان کو معاشی ترقی میں ترجیحات متعین کرنے میں مدد فراہم کر سکے۔ اسٹیبلیشمنٹ اور سیاست دانوں کے درمیان سیاسی مداخلتوں کے خاتمہ کے لیے ایک بڑے فریم ورک میں اتفاق کے ساتھ خود کو آئین و قانون کے تابع کرکے ہی ہم بہتری کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے پہلی شرط سیاست میں سیاسی دشمنیوں کا خاتمہ اور سیاسی مکالمہ کا فروغ ہے۔ مسائل کا حل قومی سطح پر ایک بڑے مکالمہ کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے جس میں سب کو اپنی اپنی رائے دینے یا سوچ اور فکر کو اختیار کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ وگرنہ ہم ایسی ریاست کی جانب بڑھیں گے جو ہمیں داخلی، علاقائی اور عالمی سطح کی سیاست، معیشت میں سوائے سیاسی تنہائی کے اور کچھ نہیں دے سکے گی اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہی ہوں گے۔