انتخابات کا مرحلہ اللہ اللہ کرکے مکمل ہو ہی گیا۔ جو سیاسی پنڈت یہ پیشن گوئیاں کرکے بیٹھے تھے کہ سادہ اکثریت حاصل کرنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز حکومت بنائے گی اور نواز شریف خود وزیراعظم ہوں گے۔
ان پیشن گوئیوں کو تو انتخابی نتائج نے غلط ثابت کر ہی دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے توقعات سے بڑھ کر نشستیں حاصل کیں اور باقی کی روایتی جماعتوں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے کہ حکومت سازی کیسے کی جائے۔
مزید پڑھیں
پاکستان مسلم لیگ ن کا سادہ اکثریت والا خواب تو چکنا چور ہوا ہی، ساتھ میں عمران خان کی جماعت کو پڑنے والے ووٹ نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اس معمے کا اب حل کیا نکالا جائے۔
پچھلے 2 دنوں سے پیپلزپارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم کی ’آنیاں جانیاں‘ لگی ہوئی ہیں اور لاہور اس وقت سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حالانکہ جس مرکز کے لیے یہ سیاستدان دوڑے پھر رہے ہیں یعنی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد یہاں پر تو فی الحال سناٹا ہے۔
نہ وہ سائرن بجاتے کانوائے گزر رہے ہیں نہ پروٹوکول کی قطاروں میں سیاسی لیڈر گزرتے دیکھے جارہے ہیں۔ لاہور کا اس سیاسی جوڑ توڑ کا مرکز بننا اس لیے ہے کہ ن لیگ کا مرکزی دفتر اور اس کی قیادت کی رہائش گاہ وہیں ہے اور کیونکہ مسلم لیگ نواز اس وقت سب سے بڑی جماعت ابھر کر سامنے آئی ہے اس لیے تمام تر سیاسی ایکٹویٹی بھی وہیں نظر آرہی ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سب سے زیادہ سیٹیں تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار جیت کر آئے ہیں تو میں نے اسے کیوں سب سے بڑی جماعت نہیں کہا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انتخابی نشان چھن جانے کے بعد یہ امیدوار کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ سے منتخب ہوکر نہیں آئے تو اس لیے ان امیدواروں کے مجموعے کو ایک جماعت نہیں کہا جاسکتا۔
بہرحال اب آتے ہیں اپنے اصلی مدعے پر کہ مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا بننے جا رہا ہے؟ کون سی جماعت مرکز میں لیڈ کرے گی؟ صوبوں میں کون وزارت اعلیٰ کا امیدوار ہے اور پاور شیئر نگ کا فارمولہ کیا ہوگا۔
سب سے پہلے اگر مرکز کی بات کریں تو آخری اطلاعات آنے تک اتوار کے روز ن لیگی قیادت سے پہلے ’ایم کیو ایم‘ کا وفد ملنے آیا اور پھر اس کے بعد ن لیگ کا ایک وفد آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے ملنے بلاول ہاؤس گیا۔
یہ بات تو طے ہے کہ حکومت یہ تینوں اور باقی چھوٹی جماعتیں مل کر ہی بنائیں گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ سانحہ 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کا مرکز میں اقتدار میں آنا فی الحال ممکن نہیں لگتا اور اسی 9 مئی کی وجہ سے کوئی اور جماعت بھی مل کر مرکز میں اتحادی حکومت بنانے کا خدشہ مول لینا نہیں چاہتی۔
اس لیے پی ٹی آئی کے خالصتاً نظریاتی امیدواروں کو چھوڑ کر کچھ پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار 2 بڑی جماعتوں کے ساتھ مل جائیں گےیا ملنا شروع ہو گئے ہیں۔
اتوار کے دن تک کوئی آدھا درجن آزاد امیدوار پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کر بھی چکے ہیں۔
اب جب آپ پی ٹی آئی کو اس اقتدار کے پورے کھیل سے دور رکھ دیں تو باقی جماعتوں کی اتحادی حکومت نے آپس میں یہ فارمولہ طے کرنا ہے کہ مرکز میں کونسی جماعت کو کیا ملنا ہے۔
مرکز میں 6 اہم عہدے ہیں، صدر، وزیراعظم، چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، کیونکہ پاکستان مسلم لیگ ن سب سے بڑی جماعت ہے اس لیے وزارت عظمیٰ اس کے پاس جائے گی جبکہ صدارت پیپلزپارٹی کے پاس رہے گی۔
اسی طرح چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر بھی یہ تینوں جماعتیں آپس میں مل کر کسی فارمولے کے تحت بانٹیں گی۔
صوبوں کی اگر بات کریں تو سندھ میں کیونکہ پیپلزپارٹی واضح اکثریت میں ہے اس لیے حکومت سازی بھی وہی کرے گی۔ تاہم گورنرشپ پر کوئی گفت و شنید ہو سکتی ہے۔
اسی طرح پنجاب میں ن لیگ اکثریت میں ہے اس لیے حکومت سازی بھی وہی کرے گی لیکن وزارتوں میں پیپلزپارٹی، ق لیگ اور استحکام پاکستان کو کچھ نہ کچھ حصہ ’بقدرے جثہ‘ ملے گا۔
خیبر پختونخواہ بڑا مختلف نوعیت کا ہے کیونکہ پی ٹی آئی بھاری اکثریت سے جیتی ہے۔ اس لیے حکومت سازی تو اسے ملے گی لیکن میرے خیال میں ان کے لیےخرید و فروخت آسان نہیں ہوگی۔ جبکہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی، ن لیگ اور دیگر قومی جماعتیں مل کر حکومت بناتے ہوئے نظر آرہی ہیں۔
اس تمام تر سیاسی منظر نامے میں آنے والے دنوں میں آپ میڈیا پر یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ شاید ان پارٹیوں میں اتفاق رائے نہیں بن پا رہا یا آگے چل کر اختلافات سامنے آئیں گے۔
میرے خیال میں یہ صرف عوام کو دکھانے کے لیے پولیٹیکل سٹنٹس ہیں۔ آخر میں ہونا وہی ہے جو شاید پہلے سے ہی کافی حد تک طے ہوچکا ہے۔ بہرحال امید ہے جو بھی حکومت آئے وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کرے اور اس کی ساری توجہ عوامی مسائل حل کرنے پر ہی مرکوز ہو۔