3 جنوری کو ہندوستانی سنیما اور سیاست کی جانی مانی شخصیت ای کروناندھی ایک بڑی پروجیکٹڈ اسکرین پر براہ راست سامعین کے روبرو نمودار ہوئے اور اپنے 82 سالہ دوست اور ساتھی سیاستدان ٹی آر بالو کو ان کی سوانحی کتاب کے اجراء پر مبارکباد دی۔
سفید قمیص زیب تن کیے اور اپنا ٹریڈ مارک سیاہ چشمہ پہنے اور زرد شال اوڑھے کروناندھی جی شاندار لگ رہے تھے لیکن ان کی اس طرح کسی تقریب میں جلوہ گری بظاہر کوئی ایسا غیر معمولی کام نہیں لگتا جب تک آپ کو یہ علم نہ ہوجائے کہ کروناندھی 2018 میں اس جہانِ فانی سے کوچ کرچکے ہیں اور یہ ان کا تیسرا ڈیجیٹل اوتار تھا۔
مزید پڑھیں
کروناندھی ہندوستان کے سب سے طویل عرصے تک کام کرنے والے قانون سازوں میں سے ایک تھے جنہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک ریاست تامل ناڈو کی قیادت کی، مجموعی طور پر 5 مرتبہ بطور وزیر اعلیٰ خدمات انجام دیں، شاعر سے سیاست دان بنے، انہوں نے نچلی ذات کی آزادی کے بارے میں اسکرین پلے لکھے اور عمر رسیدہ ووٹروں میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا۔
گزشتہ 6 ماہ کے دوران یہ تیسرا موقع تھا جب ڈی کے ایم کے اس مشہور ومعروف رہنما کو اس طرح کے عوامی اجتماع کے لیے مصنوعی ذہانت کے ذریعہ ایک طرح سے دوبارہ زندہ کیا گیا تھا، ان کی ڈیپ فیک ویڈیو بنانے والی میڈیا ٹیک کمپنی مونیئم کے بانی سینتھل نیاگم کا کہنا ہے کہ یہاں ڈیپ فیکس کی ایک مارکیٹ کھل رہی ہے، جس میں کچھ بیانات آپ کسی خاص شخص سے منسوب کرسکتے ہیں۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، کروناندھی کے مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیارکردہ ویڈیوز کی حوصلہ افزائی نے دراوڑ منیترا کزگم یعنی ڈی ایم کے پارٹی کی قیادت کو آئندہ 2024 کے پارلیمانی انتخابی مہم میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے کروناندھی کی تقاریر بنانے کے بارے میں سوچنے پر اکسایا ہے۔
سینتھل نیاگم نے کروناندھی جی کا عوامی طور پر دستیاب ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے ان کا نوے کی دہائی والا تقریری ماڈل ترتیب دیا، پہلے سے ریکارڈ شدہ تقریر کا اسکرپٹ ڈی ایم کے کی مقامی قیادت نے فراہم کیا تھا، جسے پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے جانچ پڑتال کرکے اسے منظور کیا۔ کروناندھی ہندوستان کے سب سے طویل عرصے تک کام کرنے والے قانون سازوں میں سے ایک تھے جنہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک ریاست تامل ناڈو کی قیادت کی، کل پانچ مرتبہ بطور وزیر اعلیٰ خدمات انجام دیں۔ شاعر سے سیاست دان بنے اس نے نچلی ذات کی آزادی کے بارے میں اسکرین پلے لکھے اور بوڑھے ووٹروں میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا۔
ایک اخلاقی اور قانونی الجھن
اپنی نوعیت کے پہلے استعمال میں جب پالیسی ساز مصنوعی ذہانت پر مبنی ابلاغ کی ان اقسام کی مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں جنہیں ریگولیٹ کیا جانا چاہیے، ایک سیاسی جماعت نے آج کے رہنما کو فروغ دینے کے لیے ایک پرانے سیاسی کامریڈ کو زندہ کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا۔
لیکن ٹیکنالوجی کی بدولت اس سیاسی پیش رفت پر کچھ پریشان کن اخلاقی اور قانونی سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں، ایک زندہ شخص کے ذریعہ مصنوعی آڈیو اور ویڈیو بنانے کے لئے مصنوعی ذہانت کا استعمال ایک چیز ہے، کیونکہ بظاہر وہ اسکرپٹ پر دستخط کرتا ہے۔
موزیلا فاؤنڈیشن میں ٹرسٹ ورتھی اے آئی کے سینئر فیلو امبر سنہا نے کہا کہ کسی مردہ شخص کو زندہ کرنا اور انہیں کوئی رائے تھمانا بالکل دوسری بات ہے لیکن جن پہلے ہی بوتل سے باہر آچکا ہے۔
ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی مشاورتوں کے لیے مشہور جارویس کنسلٹنگ کے ڈائریکٹر ڈگج موگرا کے مطابق، انتخابی مہموں کے لیے مصنوعی ذہانت کی سہولت سے آراستہ مواد کی تشہیر، بشمول آؤٹ باؤنڈ وائس کالز اور ایس ایم ایس، اوتار کی تخلیق، ذاتی میڈیا کی رسائی اور سوشل میڈیا پر مصنوعی ذہانت کی تخلیق کردہ کثیر اللسانی تخلیقات، اس انتخابی سال ہندوستان میں 6 کروڑ روپے مالیت کی مارکیٹ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
جے للیتا، ایم جی رامچندرن اور وجے کانت کا حوالہ دیتے ہوئے سینتھل نیاگم کا کہنا تھا کہ تامل ناڈو میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے بڑے رہنما اب نہیں رہے، انہوں نے بتایا کہ وہ اسی طرح کے ڈیپ فیکس کے لیےمصنوعی ذہانت کا فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھنے والے تمام سیاسی جماعتوں کے متعدد نچلے درجے کے عہدیداروں سے رابطے میں ہیں۔
سینتھل نیاگم کے مطابق گزشتہ سال ستمبر میں ایکس یعنی سابقہ ٹوئٹر پر وزیر اعظم نریندر مودی کے من کی بات پروگرام کا چار منٹ کا آڈیو کلپ ان کی فرم کی جانب سے 8 زبانوں میں کلون کرکے شیئر کرنے کے بعد اس طرح کی ایپلی کیشنز میں عوامی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے، اس وقت عوامی ردعمل نے انہیں سینتھل نیاگم اور دیگر کنسلٹنٹس کو مصنوعی ذہانت پر منحصر انتخابی مہم میں کاروباری موقع ڈھونڈنے کا خیال دیا ہے۔
عالمی سطح پر 2024 میں 60 سے زائد ممالک میں قومی انتخابات متوقع ہیں، اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال کے امکانات اخلاقی گھبراہٹ کا باعث بن گئے ہیں، جو ایک عوامی جذبات اور احساسات سے وابستہ اہم مسئلے میں تبدیل ہو چکا ہے۔