جڑانوالہ واقعہ: کیا ملک میں پولیس صرف مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ہے؟ چیف جسٹس پاکستان

منگل 13 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جڑانوالہ واقعہ کیس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا پاکستان میں پولیس صرف مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ہے؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی قرآنی اوراق کی بے حرمتی کرتے ہوئے ساتھ اپنا شناختی کارڈ بھی رکھ دے؟ کیا آپ کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ یہ سازش ہو رہی ہے؟ ان ریمارکس کے بعد سپریم کورٹ نے جڑانوالہ واقعہ پرحکومتی رپورٹ مسترد کردی۔

سپریم کورٹ میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جڑانوالہ واقعہ کی تحقیقات پر سوالات اٹھائے اور ریمارکس دیے کہ کیا مسیحی برادری آپ کو عقل سے محروم لگتی ہے جو قران کی بےحرمتی کرکے ثبوت بھی چھوڑے گی؟ اس معاملے پر کتنے پولیس والوں کو فارغ کیا گیا ہے؟

جس پر ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے جواب دیا کہ پولیس اہلکاروں کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے، قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کا بنیادی فرض عوام کا تحفظ کرنا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایس ایس پی انوسٹی گیشن سے پوچھا کہ پولیس نے کہا بڑی بڑی داڑھیوں والے جتھا لے کر آ رہے ہیں تو مسیحی برادری کے خلاف مقدمہ درج کرو، ایس ایس پی انوسٹی گیشن نے جواب دیا کہ جڑانوالہ واقعے پر جے آئی ٹی بنا دی گئی تھی، تحقیقات ہو رہی ہیں۔

چیف جسٹس بولے کہ یہ جے آئی ٹی کیا بلا ہوتی ہے؟ جس کام کو پورا نا کرنا ہو اس پر جے آئی ٹی بنا دی جاتی ہے۔ پنجاب حکومت کی رپورٹ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہے۔ جڑانوالہ واقعہ پرحکومتی رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیے کہ دوسری جگہوں پر جا کراسلاموفوبیا پر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور خود کیا کر رہے ہیں؟ کیا بھارت میں غیرمسلموں پرہونے والا ظلم یہاں کرنا چاہتے ہیں؟

دوران سماعت ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ جڑانوالہ واقعہ 16 اگست 2023 کو ہوا تھا، 22 مقدمات درج، 304 افراد گرفتار ہوئے، 22 میں سے 18 ایف آئی آرز کے چالان جمع ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ماشااللہ سے 6 ماہ میں صرف یہ 18 چالان ہوئے؟ دوسری جگہوں پر جا کر اسلاموفوبیا پر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور خود کیا کر رہے ہیں؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پولیس نے اپنی آنکھوں کے سامنے سب جلتا دیکھا؟ جڑانوالہ میں بہادر پولیس کھڑی تماشہ دیکھتی رہی۔

کیس میں سماعت کے دوران تحریک لبیک کا ذکر آنے پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سن لیا اب، یہ وہی لوگ ہیں فیض آباد دھرنے والے، ریاست ان کے ساتھ کھڑی ہے، اب وہ اژدھے بن گئے ہیں۔

ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی جانب سے کھل کر نام نہ لینے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا، اور کہا کہ آپ سے ہمت نہیں ہو رہی تو تحریک لبیک کو نوٹس دیتے ہیں وہ خود مان لیں گے۔

چیف جسٹس  اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن کے درمیان مکالمہ ہوا جس میں چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کب سے ہیں پولیس میں اور بھرتی کیسے ہوئے ہیں؟ ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے جواب دیا کہ میں فوج سے پولیس میں گیا تھا، چیف جسٹس نے دوبارہ پوچھا کہ کیا آپ فوج سے نکال دیے گئے تھے؟

ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے جواب دیا کہ میں نکالا نہیں گیا بلکہ پولیس سروس جوائن کی تھی۔ چیف جسٹس بولے کہ آپ فوج سے ہیں تو آپ کو دلیر ہونا چاہیے، آپ میں تو اعتماد ہی نہیں نظر آرہا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے الیکشن سے متعلق درخواست کی خبروں پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اخبار دیکھیں ہیڈ لائنز لگی ہوئی سپریم کورٹ میں پٹیشن لگ گئی، چیف جسٹس پاکستان کو پتہ بھی نہیں پٹیشن لگی ہے، پٹیشن ابھی کمیٹی میں بھی نہیں گئی، آج کل بس پر کوئی موبائل پکڑ کر سمجھتا ہے کہ صحافی ہے اور بس وہیں ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔

’آزادی صحافت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر ادارے کو تباہ کر دو۔‘

واضح رہے سپریم کورٹ میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، پنجاب حکومت نے جڑانوالہ واقعے سے متعلق پیشرفت رپورٹ عدالت میں جمع کرائی  جس پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp