عام انتخابات کے انعقاد کے بعد قومی اسمبلی کے حلقوں کے نتائج میں بعض ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جو انتہائی دلچسپ ہیں، ایک طرف ایک امیدوار اپنے حلقے سے 10 ہزار ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پایا تو دوسری طرف ایک اور حلقے سے ایک امیدوار کو 2 لاکھ 17 ہزار ووٹ ملے، ایک حلقے سے جیتنے والے امیدوار کی سبقت ایک لاکھ 83 ہزار ووٹوں کی ہے جبکہ ایک اور حلقے سے ایک امیدوار محض 293 ووٹوں کی برتری سے جیت گیا، صدمے والی بات تو یہ ہے کہ ایک امیدوار اپنے حلقے سے 1 لاکھ 83 ہزار ووٹ حاصل کرنے کے باوجود بھی کامیاب نہ ہو سکا۔
2 لاکھ سے زائد ووٹوں نے کسے کامیاب کیا؟
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 89 میانوالی ٹو سے پی ٹی ائی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار جمال احسن خان نے 2 لاکھ 17 ہزار ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مخالف ن لیگی امیدوار عبید اللہ 34 ہزار ووٹ ہی حاصل کرسکے، قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 67 حافظ آباد کا انتخابی معرکہ پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار انیقہ مہدی نے 2 لاکھ 8 ہزار ووٹ حاصل کرتے ہوئے اپنے نام کیا جبکہ ان کی مخالف مسلم لیگ ن کی امیدوار سائرہ افضل تارڑ بھی سخت مقابلہ کرتے ہوئے ایک لاکھ 83 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔
20 ہزار یا کم ووٹوں کی بدولت جیتنے والے امیدوار
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 264 کوئٹہ تھری سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما جمال خان رئیسانی 10 ہزار 678 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مخالف امیدوار بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل فقط 929 ووٹ ہی حاصل کرپائے۔
اسی طرح کوئٹہ کے ہی حلقہ این اے 262 سے آزاد امیدوار عادل خان بیزئی 20 ہزار 273 ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پائے ہیں، متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار کراچی کے حلقے این اے 244 سے 20 ہزار 48 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ ایم کیو ایم کے ہی ایک اور امیدوار اقبال خان کراچی کے حلقے این اے 235 سے 20 ہزار 85 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔
ایسے اعدادوشمار کی روشنی میں جب کامیابی نے امیدواروں کے قدم فقط 20 اور 10 ہزار ووٹوں کے حصول پر ہی چوم لیے وہیں حیرت انگیز معاملہ قوم اسمبلی کے حلقہ این اے 67 حافظ اباد سے مسلم لیگ ن کی امیدوار سائرہ افضل تارڑ کا رہا، جو ایک لاکھ 83 ووٹ حاصل کرنے کے باوجود منتخب نہ ہوسکیں۔