ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے، پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور صوبائی صدر علی امین گنڈا پور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا منتخب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے 90 ووٹ حاصل کیے ہیں۔
نامزد وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کون ہیں؟
سردار علی امین گنڈا پور کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کولاچی کے زمین دار خاندان سے ہے۔ علی امین گنڈا پور کا خاندان کئی عرصے سے سیاست میں سرگرم ہے۔ ان کے والد آرمی سے میجر ریٹائر تھے اور پرویز مشرف دور میں نگراں وزیر بھی رہے تھے جو گزشتہ روز وفات پا گئے ہیں۔
نامزد وزیر اعلیٰ کافی عرصے سے پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہیں اور اپنے دبنگ اسٹائل کی وجہ سے جلد ہی پارٹی میں مقبول ہوگئے اور عمران خان کے بھی قریب ہو گئے۔ علی امین خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن اور 2018 میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے بعد میں وفاقی وزیر بن گئے۔
علی امین پہلے کب سیاسی منظرنامے پرآئے؟
سال 2010 تک علی امین گنڈاپور کچھ زیادہ مقبول نہیں تھے اور ڈی آئی خان تک محدود تھے۔ پشاور میں مقیم سینئر صحافی اور نجی ٹی وی کی بیورو چیف فرزانہ علی کے مطابق علی امین گنڈاپور کولاچی میں کافی حد تک مقبول تھے جس کی وجہ ان کا دبنگ اسٹائل اور کتوں اور گھوڑوں کا شوق رکھنا تھا۔ وہ کولاچی میں مقامی سطح پر مقابلے بھی کرواتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلی بار علی امین سیاسی منظر نامے میں اس وقت نظر آئے جب عمران خان لانگ مارچ لے کر وزیرستان روانہ ہو گئے اور ڈی آئی خان میں علی امین کے فارم ہاؤس میں قیام کیا۔ فرزانہ کے مطابق اس کے بعد سے علی امین گنڈاپور کی اہمیت بڑھ گئی اور آہستہ آہستہ عمران خان کے بھی قریب ہوتے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ ہی عرصے میں وہ عمران خان کے اتنے قریب ہوئے کہ بنی گالہ آنا جانا شروع ہو گیا۔
غصہ ناک، دبنگ انداز
فرزانہ علی کے مطابق علی امین کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ غصے کے تیز ہیں اور سیاسی مخالفین کے خلاف اکثر سخت لہجہ اپناتے ہیں۔ فرزانہ علی نے بتایا کہ ان کے والد نے الیکشن میں مقتدر حلقوں کو بتایا کہ علی امین کے رویے میں بہت تبدیلی آئی ہے، جس کے بعد ہی ان کے وزیراعلیٰ بننے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
’اگر آپ علی امین کا امیر حیدر خان، محمود خان سے موازانہ کرتے ہیں تو علی امین میں بالکل بھی ٹھہراؤ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ پرویز خٹک کے مقابلے میں بھی ٹھہراؤ نہیں ہے۔‘
فرزانہ نے بتایا کہ پارٹی کے اندر علی امین گنڈاپور کو پسند کیا جاتا ہے جس کی وجہ ان کا دبنگ اسٹائل ہے اور ورکرز اس سے خوش ہیں۔
انتظامیہ اور پولیس کے خلاف سخت رویہ
علی امین گنڈاپور تاحال روپوش ہیں اور الیکشن مہم کے دوران بھی منظر عام پر نہیں آئے۔ 9 مئی کے بعد وہ گرفتار بھی ہوئے تھے لیکن ضمانت پر رہائی کے بعد روپوش ہو گئے۔
فرزانہ علی کے مطابق علی امین پولیس اور سول انتظامیہ پر سخت غصہ ہیں۔ جس کا اندازہ الیکشن کے بعد جاری ان کے پیغام سے بھی ہوتا ہے۔
’ضرور غصہ ہوگا ان کے ساتھ کیا نہیں ہوا، ہر زور پولیس گھر پہ چھاپے مارتی تھی، یہاں تک کہ الماری تک کی تلاشی لی گئی۔‘
صحافی عارف حیات کے مطابق علی امین سخت مزاج کے انسان ہیں۔ جو برے وقت کو کبھی نہیں بھولتا۔ بتایا کہ 9 مئی کے بعد ان پر کافی سخت وقت آیا لیکن خان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ جس کا صلہ آج خان نے انہیں وزیراعلیٰ نامزد کرکے دے دیا۔
عارف حیات نے بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کو مولانا فضل الرحمان کی جماعت کا گڑھ بھی کہا جاتا تھا۔ جبکہ وہاں سے پی پی پی کے رہنما فیصل کریم کنڈی بھی مضبوط سیاست دان ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ علی امین نے کم وقت میں پی ٹی آئی کی جیت کو یقینی بنایا اور مولانا فضل الرحمان اور فیصل کریم کو شکست دی جو کہ بہت بڑی بات تھی۔ عارف نے بتایا کہ 9 مئی کے بعد ان کے خلاف کرپشن کے کسز بھی بنے لیکن وہ ڈرے نہیں۔ علی امین سخت انسان ہیں مقابلہ کرنے والے، مشکل وقت میں کھڑے رہنے والے ہیں۔
سیاست میں انٹری
علی امین گنڈاپور پہلی بار 2013 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پی کے 64 ڈی آئی خان سے کامیاب ہو ئے۔ اور پرویز خٹک کابینہ میں وزیر مال کے طور پر منصب سنبھالا۔ سال 2018 کے انتخابات میں دوبارہ حصہ لیا اور این اے 38 ڈی آئی خان سے کامیاب ہوئے۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے انہیں اپنی کابینہ میں امور کشمیر و گلگت بلتستان کا قلمدان سونپا۔
علی امین گنڈاپور کے خلاف کون سے مقدمات درج ہوئے؟
نامزد وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو پہلی بار 6 اپریل 2023 کو پشاور ہائیکورٹ ڈیرہ اسماعیل خان بینچ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں پہلے اسلام آباد پولیس اور بعدازاں بھکر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی رہنما کے خلاف گولڑہ پولیس میں حکومتی اتحاد کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کرنے، سرکاری اہلکاروں کو دھمکیاں دینے اور عوام کو حکومت کے خلاف اُکسانے کا الزام تھا۔
بعدازاں ضلع ڈی آئی خان کے 2 مقدمات میں اُن کو بری کر دیا گیا تھا، تاہم انہیں اسلام آباد اور پنجاب میں دائر مختلف مقدمات میں 6 روزہ ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔
علی امین گنڈاپور پر 13 اپریل کو پنجاب پولیس نے پنجاب آرمز آرڈیننس 2015 کی دفعات کے تحت بھکر میں درج ایک مقدمے میں گرفتار کرکے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔ بعد ازاں ان کو 4 مئی 2023 کو سکھر جیل سے رہا کردیا گیا۔ جس کے بعد وہ مزید گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہو گئے۔ اور تاحال روپوش ہیں۔
جبکہ انسداد گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی کو کینٹ پر حملے اور جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں مراد سعید، حماد اظہر اور علی امین گنڈا پور سمیت 51 رہنماوں کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے۔
‘شراب، شہد’ کی بوتلیں اور اسلحے والا واقعہ
اکتوبر 2016 کو علی امین گنڈاپور اپنے ساتھیوں سمیت بنی گالہ جا رہے تھے کہ کلمہ چوک پر پولیس نے ان کی گاڑی کی تلاشی لی جس کے دوران پولیس نے ان کی گاڑی سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور شراب کی بوتلیں برآمد کرنے دعویٰ کیا، جبکہ وہ خود فرار ہو گئے تھے۔
بعد ازاں علی امین گنڈاپور نے پولیس کے موقف کو مسترد کیا اور موقف اپنایا تھا کہ ان کے پاس ذاتی گارڈ نہیں پولیس اہلکار سیکیورٹی پر تعینات ہیں جبکہ بوتلیں شہد کی تھیں جو پولیس نے شراب قرار دیں۔