جنگ عظیم اول کے میسوپوٹیمیا کے محاربات میں برطانیہ کوترکوں کے ہاتھوں سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔29 اپریل 1916ءکو جنگِ کوت میں ناکامی کے بعد برطانوی افواج کو پسپائی اختیار کرتے ہوئے جنگی حکمت عملی از سر نو ترتیب دینا پڑی۔
برطانوی وار کمیٹی کی حکمت عملی دفاعی نوعیت کی تھی، کیونکہ طویل جنگ نے برطانوی سپاہیوں کی کمر توڑ دی تھی اور آنے والا موسم مزید سختیوں کا پیش خیمہ ہو سکتا تھا۔ دریائی پانی کے اترنے کے بعد شدید گرمی میں ریت کے طوفانی جھکڑوں کی وجہ سے نقل و حمل شدید متاثر ہو سکتی تھی اور سامان رسد کی بروقت فراہمی میں رکاوٹ فوجیوں کو مزید پریشانی میں مبتلا کر سکتی تھی۔
ان ممکنہ مسائل کے مد نظر برطانوی کمانڈر جنرل لیک کو ہدایت کی گئی کہ وہ محفوظ لائن تک پیچھے ہٹ جائے۔ کم و بیش گیارہ ہزار زخمی سپاہیوں کو ہندوستان واپس بھیجا گیا جس کے بعد بھی تقریباً 16500 سپاہی میسوپوٹیمیا کے ہسپتالوں میں زیر علاج تھے۔ جنرل لیک کے لیے یہ حالات مایوس کن تھے، کیوں کہ تازہ دم آنے والے دستوں کی کثیر تعداد عراقی میدانوں کی گرمی سے عضو معطل ہو کر رہ جاتی تھی۔
جنرل لیک نے کوشش کی کہ حالات کو بہتر بنایا جائے۔ برطانیہ اورہندوستان سے سامان رسد کی مزید ترسیل کی گئی اور تازہ دم فوجی بھرتیاں کی گئیں۔ بصرہ کو بیس کیمپ بنا کے تمام کارروائیوں کا مرکز قرار دیا گیا۔ سامان کی ترسیل کے لیے دریاؤں کے ساتھ ساتھ سڑکوں کو منظم کیا گیا اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی ، ریل کی لائنیں بچھائی گئیں۔
مزید یہ کہ جنرل لیک نے ضروری انتظامی تبدیلیوں پر خصوصی توجہ کی اور کئی ماہ کی محنت کے بعد فوجی تنظیم سازی کو اپنی ڈگر پر لے آیا۔ برطانوی دفتر جنگ نے انتہائی ضروری سامان کے علاوہ کسی بھی قسم کی مدد سے معذرت کر لی اور جنرل لیک کو ہدایت کی گئی کہ وہ مقامی طور پر ضروری اشیاء کی ترسیل کی کوشش کرے جن میں ہندوستانی فوجیوں کے لیے غلہ، جانوروں کے لیے چارہ، ہسپتالوں کے لیے ضروری سامان، سڑکوں کے لیے پتھر کا حصول وغیرہ شامل تھیں۔
جنرل لیک نے پتھر کے حصول کے لیے یمن کا انتخاب کیا اور اس کے لیے ریلوے لائن بچھائی گئی۔بنی بنائی اینٹیں اہواز سے حاصل کی گئیں، جپسم شوستر سے اور لکڑی ملابار سے لائی گئی۔ خلیج ایران کے چپے چپے کو سامان رسد کی ترسیل کے لیے کام میں لایا گیا۔ جنرل لیک ابھی اپنی ان کوششوں کے ثمرات بھی نہ دیکھنے پایا تھا کہ وار کمیٹی نے اگست 1916ء میں اسے واپس بلوا لیا اور اس کی جگہ محاربات فرانس و گیلی پولی کے آزمودہ جنرل موڈے کو بھیجا گیا جو اسوقت میسوپوٹیمیا میں تیرہویں ڈویژن کی قیادت کر رہا تھا۔
جنرل موڈے نے ہندوستانی بھرتیوں پر خصوصی توجہ دی اور بحری راستے سے ان فوجیوں کو بصرہ تک پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ اکتوبر 1916ء میں جنرل چارلس منرو نے میسوپوٹیمیا میں جنرل موڈے سے ملاقات کی جواصل میں ہندوستان میں فوجی قیادت سنبھالنے جا رہا تھا۔دونوں نے جنگی صورتحال کا جائزہ لیا اور یہ طے کیا کہ یہ حالات فوجی حرکت کے لیے انتہائی سازگار ہیں اور اب مزید وقت ضائع کیے حملہ کر دینا چاہیے۔
جنرل موڈے کی فوج برطانوی اور ہندوستانیوں پر مشتمل تھی۔ ہندوستان سے سکھوں، پنجابیوں اور گھورکھا سپاہیوں کو خاص بھرتی کیا گیا۔ان ہندوستانی سپاہیوں کو بحری راستوں سے بصرہ کے بیس کیمپ تک پہنچایا گیا جہاں انہیں فوجی تربیت دی گئی۔نقل و حمل کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے کافی غور و حوض کے بعد جنرل موڈے نے یہ تجویز کیا کہ اسے اپنی افواج کو آہستہ آہستہ سلسلہ وار حرکت دینی چاہیے اور مقصد بغداد کی فتح کے بجائے ہر چھوٹے بڑے محاذ پر ترک فوجوں کی شکست ہو۔
12 دسمبر 1916ء کو جنرل موڈے نے برطانوی و ہندوستانی فوجی دستوں کو آگے بڑھایا۔اس وقت اسکی کمان میں کم و بیش پچاس ہزار سپاہ تھی جب کے اس کے مخالف ترکوں کی تعداد پچیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔تیزی سے سفر کرتے ہوئے برطانوی افواج نے 18 دسمبر کو دریائے ہائی کے دائیں کنارے کا مورچہ سنبھال لیا۔
26 دسمبر کو جنرل موڈے کے لیے اس وقت مصیبت کھڑی ہو گئی جب بارش شروع ہوئی اور میدان دلدلی ہو گیا۔ یہ بارش لگاتار 6 جنوری 1917ء تک ہوتی رہی۔ دلدل اور کیچڑ نے برطانوی افواج کو معطل کر دیا مگر جنرل موڈے نے ہمت سے کام لیا اور اپنی اگلی صفوں سے بھی کئی گز آگے خندقیں کھدوا کے فوج کی حرکت جاری رکھی۔ خندقیں کھودنے کا تمام کام رات میں ہوتا اور اس سلسلے میں بارش کی بھی پروا نہ کی گئی۔
اس موقع پر شاید کوئی اور جنرل فوجوں کی نقل و حمل روک دیتا مگر جنرل موڈے نے سختی سے اپنی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مارچ جاری رکھا حتیٰ کہ 9 جنوری کو وہ اس قابل ہو گیا کہ ترکوں پہ بھاری حملہ کر سکے۔ ترکوں نے سختی سے اس کے حملے کے خلاف مزاحمت کی۔یہ مزاحمت اتنی شدید تھی کہ برطانوی فوج کو دس دن تک روکے رکھا۔ 19 جنوری کو بالآخر ترک فوج پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی لیکن ان دس دنوں میں وہ برطانوی فوج کا بھاری نقصان کر چکی تھی۔
جنرل موڈے نے دریائے دجلہ کے دونوں اطراف پیش قدمی کی اور دو ہفتے (6 تا 19 جنوری1917ء)کے محاصرے کے بعد خدیری بیند کے مضبوط قلعے پر قبضہ کر لیا۔ شاید یہی ہزیمت میسوپوٹیمیا میں ترکوں کی شکست کا اصل سبب بنی۔ بقول ترک اسٹاف آفیسر محمد امین کہ یہ ہزیمت ہی جنگ کا فیصلہ کن موڑ تھی جس نے ترکوں کو بھاری نقصان اٹھانے پر مجبور کیا۔
بہرحال ، جنرل موڈے مزید آگے بڑھا اور اس جگہ جہاں دریائے ہائی ، دجلہ میں گرتاہے، وہاں پر قبضہ کر لیا۔ اس جھڑپ میں جنرل موڈے کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔اگلے دو ہفتوں میں انگریزوں نے عثمانیوں کی ایک اور مضبوط پوزیشن (داہرہ بیند) کا کنڑول بھی سنبھال لیا اور 24 فروری کو کوت العمارہ پر بھی قبضہ کر لیا۔
5 مارچ 1917ء کو بغداد کے لیے پیش قدمی کی گئی اور تین دن بعد جنرل موڈے نواح شہر میں دریائے دیالہ تک جا پہنچا۔ ترک جنرل خلیل پاشا نے بغداد سے تقریبا 35 میل دور دیالہ اور دجلہ کے سنگم کو بغداد کے دفاعی میدان کے طور پر منتخب کیا-ابتدائی مزاحمت کے پیش نظر جنرل موڈے نے اپنی فوج کی اکثریت شمال میں منتقل کر دی اور سائڈ سے بغداد پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ ترک جنرل خلیل پاشا نے اپنی فوج کو دفاعی پوزیشنوں سے ہٹا کر دریا کے دوسری طرف انگریزوں کے اس اقدام کو برابر کیا۔
دریائے دیالا کے اصلی دفاع کو روکنے کے لیے ایک رجمنٹ باقی تھی۔ انگریزوں نے 10 مارچ 1917 کو اچانک حملہ کرکے اس رجمنٹ کو کچل دیا۔ اس اچانک شکست کے بعد خلیل پاشا اور اس نے اپنی فوج کو بغداد کے شمال میں پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیا۔ عثمانی حکام نے 10 مارچ کی شام 8 بجے بغداد خالی کرنے کا حکم دیا تھا ، لیکن صورتحال تیزی سے خلیل پاشا کے کنٹرول سے باہر نکلتی جا رہی تھی۔
انگریزوں نے گیارہ مارچ کو بغیر کسی جنگ کے بغداد پر قبضہ کرلیا۔ سقوط بغداد کے ایک ہفتہ بعد جنرل موڈے کی جانب سے جاری کردہ ’اعلان بغداد‘ میں کہا گیا کہ انگریزفوجیں آپ کے شہروں اور زمینوں میں فاتح یا دشمن بن کر نہیں بلکہ آزادی دینے والے کی حیثیت سے آئی ہیں۔ ترک فوجیں اس کے بعد باقی عرب علاقوں سے بھی تیزی پسپائی اختیار کرتی گئیں اور یوں دسمبر 1917ء میں بیت المقدس ترکوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور مارچ 1918ء میں مدینہ بھی ترکوں سے خالی کروا لیا گیا۔