پاکستان میں حالیہ انتخابات کے نتائج کے بعد بہت سارے آئینی و قانونی سوالات پیدا ہو گئے ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ تو انتخابات کی شفافیت سے متعلق ہے کیونکہ زیادہ تر پاکستان تحریک انصاف جبکہ دوسری جماعتوں کی جانب سے بھی انتخابی نتائج میں دھاندلی کی شکایت کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں
علاوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف کیا بطور ایک پارلیمانی جماعت پارلیمنٹ میں بیٹھ سکتی ہے اور اگر اس کے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے اراکین دوسری جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں تو کیا پاکستان تحریک انصاف ان کے خلاف قانونی کاروائی کا حق رکھتی ہے؟ یہ وہ سارے سوالات ہیں جن کے جوابات اعلیٰ عدلیہ کے سامنے کھڑے ہوں گے اور اگر ان سوالات کے جوابات جلد نہیں آتے تو ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا بنی رہے گی۔
الیکشن کے حوالے سے چیف جسٹس کے ریمارکس
آج چیف جسٹس نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی خبروں پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سب ٹی وی چینلز نے ’ٹکرز‘ چلا دیے کہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہو گئی، اخبار دیکھیں ہیڈ لائنز لگی ہوئی ہیں کہ سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر ہو گئی اور چیف جسٹس پاکستان کو پتا بھی نہیں پٹیشن آئی ہے، پٹیشن تو ابھی 3 رکنی کمیٹی کے پاس بھی نہیں گئی۔
’موبائل پکڑ کر ہر کوئی صحافی بن جاتا ہے‘
چیف جسٹس نے کہا کہ میں ٹی وی نہیں دیکھتا اخبار ہی پڑھتا ہوں اور مجھے آج بھی نہیں پتا ایسی کوئی پٹیشن ہے، آج کل بس ہر کوئی موبائل پکڑ کر سمجھتا ہے کہ صحافی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آزادی صحافت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر ادارے کو تباہ کر دو۔
سپریم کورٹ کی کاز لسٹ میں کیا ہے؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ 12 سے 16 فروری کی کاز لسٹ میں انتخابات سے متعلق کوئی اہم مقدمہ زیر سماعت نہیں۔ 12 سے 16 فروری کی جاری کردہ کاز لسٹ میں آج کے لیے صرف ایک سردار ایاز صادق کا سنہ 2015 سے چلا آنے والا مقدمہ ہے۔ مقدمے میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سردار ایاز صادق نے عمران خان کے خلاف ایک درخواست دائر کی تھی اور ایسے طویل عرصے سے چلے آ رہے مقدمات زیادہ تر غیر مؤثر ہی ہو جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے بینچ ون میں زیادہ تر مقدمات ضمانتوں، ٹیکس، وراثت، اور دیگر مقدمات سے متعلق ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات سے متعلق تنازعات سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے کب تک مقرر ہوتے ہیں۔