جمہوری ممالک میں کسی بھی بحران کے حل کے لیے انتخابات کا رستہ ہی اپنایا جاتا ہے۔ ہم نے وہ رستہ بھی اپنا لیا لیکن بحران پہلے سے زیادہ مہیب ہو کر ہمارے سروں پر کھڑا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ووٹاں شوٹان پا بیٹھے آں، روٹی شوٹی کھا بیٹھے آں، سوچی پئے آں ہن کی کریے؟
وہ بحران جس کا حل درکار تھا اب پہلے سے بڑا ہو گیا ہے، وہ تقسیم جو پہلے صرف سیاسی تھی اب نظریاتی اور ادارہ جاتی بھی ہو گئی ہے۔ اب اس تقسیم کا دائرہ عوامی بلکہ بین الاقوامی سرحدوں کو چھونے لگا ہے۔
دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ سب لوگ ایک پیج پر تھے۔ مثبت رپورٹنگ کا دور دورہ تھا۔ کسی نے اعتراض کیا نہ کوئی فارم پینتالیس کے چکر میں پڑا۔ نہ بین الاقوامی دنیا کی ماتھے پر شکنیں پڑیں نہ اقوام متحدہ کا کوئی اعلامیہ آیا تھا۔ سب لوگ جنرل باجوہ کی سربراہی میں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔ یہ تو اچانک جنرل صاحب کو ادراک ہوا کہ خزانہ خالی ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات تباہ ہو چکے ہیں اور سری لنکا کا نقشہ پیش منظر میں آ چکا ہے۔ تب ایک بڑا یو ٹرن لیا گیا۔ اس موقع پر اگر پی ڈی ایم شیروانیاں سلوانے میں جلدی نہ کرتا اور حکومت کے بجائے الیکشن پر مصر رہتا تو آج یہ نتائج ہوتے نہ یہ تقسیم ہوتی۔
اب معاملہ یہ ہے کہ پہلے جو عمران خان کو سلیکٹیڈ کہتے تھے، انہیں اب تسلیم کرنا چاہیے کہ عمران خان ایک سیاسی حقیقت ہیں۔ اس حقیقت سے انکار جمہوریت سے انکار کے مترادف ہے۔ اب اقتدار کے کیک میں سے ایک حصہ خان صاحب کا بھی بنتا ہے۔ اگر نہیں دیں گے تو وہ ساری دیگ الٹنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
بہت دن پہلے لکھا تھا کہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف چوتھی دفعہ وزیر اعظم بن چکے ہیں وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ بات لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن دو ہزار سترہ میں شروع ہونے والا کھیل ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اس وقت نام پاناما کا لیا گیا لیکن اصل میں نشانہ سی پیک تھا۔ اس کے بعد سے سی پیک ایک منصوبے کے تحت تباہ ہوا۔ ایک بہت بڑی سازش رچائی گئی اور اس کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑا۔ گزشتہ پانچ سال میں دیکھ لیجیے نہ پاکستان میں کوئی ترقی ہوئی نہ کوئی عوامی فلاح کا کوئی منصوبہ بنا، نہ مہنگائی میں کمی ہوئی نہ خارجہ کے تعلقات میں بہتری واقع ہوئی۔ تباہی کے پاتال میں ہم گرتے ہی رہے۔ ہم تنزلی کی منزلیں ایک کے بعد ایک کر کے طے کرتے ہی رہے۔ جو لوگ سمجھ رہے تھے کہ اب ’میاں جدوں آئے گا لگ پتا جائے گا‘ وہ خوابوں کی جنت میں رہ رہے تھے۔
سب کچھ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ذمے ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو جانا چاہیے۔ ن لیگ کو اپنی غلطیاں بھی تسلیم کرنا چاہیئیں۔ جس کسی نے ان کو تسلی دی تھی کہ ’ ساڈی گل ہو گئی اے‘ اس نے یہ نعرہ اس سرعت سے ساری جماعت کو کیوں سمجھایا کہ ن لیگ کا ووٹر تک ووٹ ڈالنے سے غافل ہوگیا؟ ن لیگ نے پوری شدت سے انتخابی مہم کیوں نہیں چلائی؟ چند جلسوں کی بنیاد پر پورے ملک کا الیکشن نہیں جیتا جا سکتا۔ یہ بات ن لیگ کے ارباب بست و کشاد کو معلوم ہونا چاہیے تھی۔ منشور میں ن لیگ کوئی نئی بات، نیا نعرہ لگانے میں کیوں ناکام رہی؟ سب سے بڑی بات جو منشور میں سے نکلی وہ یہ تھی کہ ہم ایک کروڑ نوکریاں دیں گے۔ یہ نعرہ عمران خان پانچ سال پہلے لگا چکے تھے۔ یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ن لیگ کی سوشل میڈیا اور میڈیا پالیسی عبرتناک حد تک ناکام رہی۔
جس زمانے میں ن لیگ زیر عتاب تھی، اس زمانے میں چند صحافیوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود ن لیگ کا بیانیہ عوام تک پہنچایا۔ ان کو اس کی سزا بھی ملی۔ کسی کو گولی لگی، کسی کو گھر میں گھس کر مارا پیٹا گیا، کسی کو نوکری سے نکالا گیا، کسی کے خلاف ایف آئی آرز درج ہوئیں اور کسی کے خلاف سوشل میڈیا پر دشنام سے بھرپور ٹرینڈز بنائے گئے۔ ان میں سے کسی بھی صحافی سے نہ ن لیگ کی قیادت نے ملاقات کی نہ مشورہ کرنا مناسب سمجھا۔ جبکہ عمران خان جیل میں بھی صحافیوں سے بات کرتے رہے اور بلاول بھٹو نوجوان پوڈ کاسٹرز کی پوڈ کاسٹ بھی شرکت کرتے رہے۔ اس کے بعد میڈیا سے شکوے کرنا اور چینلز کو الزام دینا ن لیگ کو زیب نہیں دیتا۔
گزشتہ غلطیوں کا ماتم بہت دیر تک کیا جاسکتا ہے لیکن جنہوں نے سبق نہیں سیکھنا انہوں نے ان غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھنا۔
اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اب کیا کریں؟ اب دھاندلی کے دو طرفہ الزامات کے بعد الیکشن متنازعہ ہو چکے ہیں۔ ری الیکشن کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔
اس موقع پر ن لیگ کے چند لوگوں کو اپنے دل سے اقتدار کی طمع کو نکالنا ضروری ہے۔ شیروانیوں کے شوق میں ملک، معیشت اور پارٹی کا جنازہ نکالنے سے بہت بہتر ہے کہ وفاق میں اپوزیشن میں بیٹھیں۔ پیپلز پارٹی اور عمران خان کو وفاق میں حکومت بنانے دیں۔ ن لیگ پنجاب میں اپنی حکومت بنائے۔ اور اپنی کارکردگی سے اپنے آپ کو آنے والے انتخابات میں فتح کا مستحق بنائے۔
اس وقت خزانہ خالی ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کا کوئی ذریعہ کسی حکومت کے پاس نہیں۔ مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے اور آنے والی حکومت کے پاس اشیائے صرف کی قیمتوں کو مہنگا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ معیشت کی بحالی کا کام چند برسوں میں ہو سکتا ہے لیکن عوام کے پاس انتظار کی اتنی تاب نہیں۔
ان انتخابات کا سب سے خطرناک پہلو یہ نہیں ہے کہ کسی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی بلکہ سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں جس پارٹی کو مینڈیٹ ملا ہے اس کی سوچ طالبان نواز ہے۔ یہ خطرے کی ایک ایسی گھنٹی ہے جو ساری ریاست کے وجود کو ہلا سکتی ہے۔ ساری دنیا کو ایک نئے خوف اور خطرے میں مبتلا کر سکتی ہے۔