خصوصی ضروریات کے حامل افراد کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی دینا انتہائی ضروری ہے۔ ان کا تعلیم پر اتنا ہی حق ہے جتنا باقی شہریوں کا۔ میں نے یہ جاننے کے لیے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خصوصی ضروریات کے حامل طلبہ کے لیے کیا مواقع دستیاب ہیں، اور ہائر ایجوکیشن کمیشن ایسے طلبہ کے لیے اپنی بنائی پالیسی پر کتنا عمل درآمد کروانے میں کامیاب ہوا ہے، مختلف لوگوں سے بات کی اور معلومات تک رسائی کے حق کے تحت مختلف اداروں کو درخواستیں بھی دیں۔
خصوصی ضروریات کے حامل طالب علم مدثر شہزاد نے حال ہی میں لاہور کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے ایم فل مکمل کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایم فل کے فائنل پروجیکٹ میں ڈیس ایبلٹی ریسورس سنٹرز میں دستیاب سہولیات پر ریسرچ کی ہے۔ وہ خود کو خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ انہیں لاہور کی پرائیویٹ یونیورسٹی میں پڑھنے کا موقع ملا جہاں افراد باہم معذوری کے لیے بھی یکساں تعلیمی سہولیات میسر ہیں۔ مگر مدثر سمجھتے ہیں کہ ہر کوئی ان کی طرح خوش قسمت نہیں۔ ڈیس ایبلٹی ریسورس سنٹر کا بورڈ ایک کمرے پر لگا دینے سے وہ ضروریات پوری نہیں کرنے لگ جاتا بلکہ اس میں ضروری کمپیوٹرز اور سافٹ ویئر کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت ہونا بھی ضروری ہے۔ مثلاً وہاں بریل ایمبوزر، مگنیفائر، آڈیو لائبریری اور لارج پرنٹ وغیرہ کی سہولت کے علاوہ ماہر سٹاف بھی موجود ہونا چاہیئے۔
مدثر کو ریسرچ کے دوران معلوم ہوا کہ لاہور میں ایک ایسی یونیورسٹی بھی ہے جس کے ڈیس ایبلٹی ریسورس سنٹر تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ انہیں ایسی یونیورسٹی بھی ملی جس کے ریسورس سنٹر کے باہر حفاظتی باڑ لگی ہوئی ہے جس سے اکثر خصوصی ضروریات کے حامل طلبا و طالبات کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں۔ کتنا شرمندگی کا باعث ہے کہ وہ کسی تعلیمی ادارے میں چل رہے ہوں اور انکے کپڑے پھٹ جائیں۔ اس کی وجہ متعلقہ سٹاف کی کم استعداد ہے۔ ایک چھت تلے تمام بچوں کو بٹھا دینا کافی نہیں ہے بلکہ انکی خصوصی ضروریات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ یونیرسٹیز میں طالبات کے لئے ڈبل ڈور واش رومز تک موجود نہیں اور نہ ہی واش رومز میں ویل چیئر جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ خصوصی ضروریات کے حامل طلبہ کو کچھ مخصوص مضامین تک محدود کر دیا جاتا ہے حالانکہ ان کا بھی حق ہے کہ وہ سائنس پڑھیں۔
مدثر نے مجھے بتایا کہ ایک سٹیپ ڈاون کا سٹوڈنٹ ہمارے پیپرز میں رائٹر کے طور پر کام آ سکتا ہے مگر عملی طور پر پی ایچ ڈی کے سٹوڈنٹس کو بھی گیارہویں یا بارہویں کے طالب علم کو رائٹرز کے طور پر لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ طلبہ پی ایچ ڈی کے رائٹ اپ کے قابل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے خصوصی ضروریات کے حامل پی ایچ ڈی سٹوڈنٹس میں فیل ہونے کا ڈر رہتا ہے جو ان کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
خصوصی ضروریات کے حامل سعد مصطفیٰ نے حال ہی میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے بی ایس آنرز مکمل کیا ہے۔ یہ بچپن سے دیکھ نہیں سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں ڈس ایبلٹی ریسورس سنٹر موجود ہے جہاں خاص سوفٹ ویئر کے حامل کمپیوٹرز موجود ہیں جن پر وہ با آسانی اپنی اسائمنٹ بنا سکتے تھے، پیپرز دے سکتے تھے۔ دیگر سٹوڈنٹس کے لئے سائن لینگوئج کے انسٹرکٹرز بھی موجود ہیں۔ پرکن بریل، بریل سکینر، بریل بکس، موبائل اپلیکیشنز، برییل امبوزر، موبیلٹی ریسورسز، ریڈرز اور رائٹرز کی سہولت بھی موجود ہے۔
مگر سعد کو لگتا ہے کہ موڈ آف کمیونیکیشن کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اکثر انسٹرکٹرز کو سٹوڈنٹس سے بات کرنے میں، انہیں اسائمنٹ دینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کلاس رومز میں کچھ ایڈز متعارف کروانے کی ضرورت ہے جس سے انکی ضروریات پوری ہوں اور وہ عام بچوں کی طرح کلاس میں سرگرم حصہ لے سکیں۔ یونیورسٹیز میں ریمپز کے ذریعے کلاس رومز تک پہنچتے ہوئے سٹوڈنٹس تھک جاتے ہیں اور ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر ان بلڈنگز میں لفٹ لگا دی جائے جس میں ویل چیئر جانے اور بریل بٹنز کی سہولت ہو تو سٹوڈنٹس کو مزید آسانی ہو گی۔ کلاس رومز کی لیبلنگ لارج پرنٹ یا ٹیکنالوجی کی مدد سے ہو تاکہ کلاس رومز تلاش کرنے میں مدد مل سکے۔ یونیورسٹی کینٹین کا مینو لارج پرنٹ یا بریل میں بھی ہونا چاہیئے تاکہ خصوصی ضروریات کے حامل طلبہ کسی محتاجی کے بغیر کھانا آرڈر کر سکیں۔
اسی طرح میں نے خصوصی ضروریات کے حامل نادر خان سے بھی بات چیت کی جو کہ ڈیس ایبلٹی کنسلٹنٹ ہیں اور اپنے جیسے افراد کے لئے ایک ادارہ بھی چلا رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ خصوصی ضروریات کے حامل طلبہ و طالبات کو داخلوں، رہائشی ہاسٹل اور فیس میں خصوصی رعایت تو مل جاتی ہے مگر تعلیمی اداروں میں ان کے لیے ضروری سہولیات ناکافی ہیں۔ مثلاً ملتان کی بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی میں خصوصی ضروریات کے حامل سٹوڈنٹس کے لیے ایک بھی واش روم نہیں، اسکی بلڈنگ قابلِ رسائی نہیں۔ اس کے مقابلے میں نواز شریف ایگری کلچر یونیورسٹی ملتان بہت بہتر ہے جس کی بلڈنگ بھی ایکسیس ایبل ہے۔ نئی تعمیر ہونے والے تعلیمی اداروں میں صورتحال قدرے بہتر نظر آتی ہے۔
تعلیمی اداروں کو یونیورسل ڈیزائن آف ایکسیس ایبلٹی کو فالو کرنا چاہیئے۔ اس حوالے سے ہم نے عالمی معاہدے بھی کئے ہیں اور پاکستان میں قوانین بھی موجود ہیں مگر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ مثلاً تعلیمی اداروں میں ریمپ ہونے چاہیں، سلوپ نہیں ہونی چاہئے، سلوپ کو سامان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ریمپ انسانوں کی نقل و حرکت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ایسے ہی واش رومز میں ہینڈ ریلز اور کموڈ ہونا چاہیئے اور اس میں کم از کم ویل چیئر کے مڑنے کی جگہ ہونی چاہیئے۔
نادر خان ان جیسے دیگر افراد یہ نہیں چاہتے کہ ان کے لیے کوئی خاص انفراسٹرکچر تعمیر ہوں جس سے دوسرے افراد کے لیے مشکلات بنیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ یونیورسل ڈیزائن آف ایکسیس ایبلٹی کو فالو کیا جائے جس سے اس سے عام افراد بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔
ایچ ای سی پالیسی بارے اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت دی گئی درخواست کے جواب میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بتایا کہ ملک بھر میں 111 اعلیٰ تعلیم کے اداروں نے ایچ ای سی کی اس پالیسی پر عمل درآمد کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس میں ‘ایکسیسبیلٹی کمیٹی’ اور ‘ڈس ایبلٹی کوآرڈینیٹرز’ کے نوٹیفکیشن بھی شامل ہیں۔ اس کا مقصد خصوصی ضروریات کے حامل سٹوڈنٹس کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ ان کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔
پنجاب میں کل 97 اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں جن میں سے 56 سرکاری جبکہ 41 پرائیویٹ اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں۔ ان تمام اداروں میں سے صرف 40 نے ایچ ای سی کی پالیسی پر عمل درآمد شروع کیا ہے جو کل اعلیٰ تعلیمی اداروں کا 41 فیصد ہے۔
پنجاب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کل 476 خصوصی ضروریات کے حامل سٹوڈنٹس زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں میں 470 جبکہ 6 خصوصی ضروریات کے حامل سٹوڈنٹس پرائیویٹ اداروں میں بھی زیر تعلیم ہیں۔
خیبر پختونخوا میں کل 44 اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں جن میں سے 33 سرکاری جبکہ 11 پرائیویٹ ہیں۔ ان میں سے صرف 10 نے پالیسی پر عمل درآمد شروع کیا ہے جو کل اعلیٰ تعلیمی اداروں کا 22 فیصد ہے۔
کے پی میں خصوصی ضروریات کے حامل سٹوڈنٹس کی کل تعداد 87 ہے جن میں سے 83 سرکاری جبکہ 4 پرائیویٹ اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
اسی طرح سندھ میں کل 75 اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں جن مں سرکاری 31 اور 44 پرائیویٹ ہیں۔ ان میں سے صرف 20 نے پالیسی پر عمل درآمد کیا ہے جو کل اعلیٰ تعلیمی اداروں کا 26 فیصد ہے۔ سندھ میں سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں میں 79 اور پرائیویٹ اداروں میں 27 خصوصی ضروریات کے حامل سٹوڈنٹس زیر تعلیم ہیں۔ یوں انکی کل تعداد 106 ہے۔
بعینہٖ بلوچستان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی کل تعداد 11 ہے جن میں سے 10 سرکاری اور صرف ایک ادارہ پرائیویٹ ہے۔ ان میں سے صرف 2 اداروں نے ایچ ای سی کی پالیسی پر عمل درآمد شروع کیا ہے جو صوبے کے کل تعلیمی اداروں کا 18 فیصد ہے۔ بلوچستان میں 13 خصوصی ضروریات کے حامل سٹوڈنٹس زیرِ تعلیم ہیں۔ ان میں سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں میں 12 اور پرائیویٹ میں صرف ایک سٹوڈنٹ ہے۔
لاہور اور متصل شہروں کی صورتحال
میں نے لاہور، جھنگ، خوشاب، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور چنیوٹ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خصوصی ضروریات کے حامل سٹوڈنٹس کے لئے دستیاب سہولیات کا موازنہ بھی کیا ہے۔ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت دی گئی درخواست کے جواب میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کہنا تھا کہ لاہور کی 25 اعلیٰ تعلیمی اداروں نے انکی پالیسی پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ جھنگ کی یونیورسٹی آف جھنگ نے ابھی تک اس پالیسی پر عمل درآمد شروع نہیں کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس کو چند ہفتے قبل یونیورسٹی آف جھنگ کے وائس چانسلر کا اضافی چارج ملا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وائس چانسلر کی عدم موجودگی کے سبب یونیورسٹی سنڈیکیٹ کا اجلاس نہیں ہو سکا تھا جس کی وجہ سے اس پالیسی کو اڈاپٹ کرنے میں تاخیر ہوئی۔ یورنیورسٹی آف جھنگ میں کل 15 خصوصی ضروریات کے حامل سٹوڈنٹس زیر تعلیم ہیں۔ بیچلرز پروگرامز میں 6 طلبا اور 4 طالبات، ماسٹرز اور ایم فل پروگرامز میں 2 طلبا اور 3 طالبات زیر تعلیم ہیں جنہیں ہر ممکنہ سہولت فراہم کی جا رہی ہے تاکہ وہ با آسانی دیگر طلبہ کی طرح اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے مزید بتایا کہ جھنگ، خوشاب، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور چنیوٹ میں یونیوسٹی آف ویٹرنی اینڈ اینیمل سائنسز، نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز اسلام آباد، یونیورسٹی آف ایجوکیشن فیصل آباد، ایریڈ ایگری کلچر یونیورسٹی راولپنڈی، اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور کے سب کیمپس موجود ہیں اور ان تمام نے اس پالیسی پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔
یونیوسٹیز کو پالیسی پر عمل درآمد کی معلومات دینے کے لیے لکھے گئے خطوط کے بارے سوال کے جواب میں ایچ ای سی کا کہنا تھا کہ وہ ای میل اور فون کالز کے ساتھ ساتھ تحریری طور پر بھی یونیورسٹیز کو اس پالیسی پر عمل درآمد کے لئے مراسلے بھیجتے رہتے ہیں۔ تمام یونیوسٹیز عمل درآمد کی رپورٹ دسمبر 2023 تک بھیجنے کا کہا گیا تھا اور ہائر ایجوکیشن کیمشن اس رپورٹ کو شائع بھی کرے گی۔
ایچ ای سی کی پالیسی کیا ہے؟
ایچ ای سی نے خصوصی ضروریات کے حامل طلبہ کے لیے پالیسی ہائر ایجوکیشن کمیشن آرڈیننس، 2002 کے تحت ملے اختیارات کے مطابق بنائی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے ادارے چاہے وہ سرکاری ہوں یا نجی شعبوں میں کام کر رہے ہوں، اس کی پابندی ان سب پر لازمی ہے۔ اس کا مقصد اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے ہدف 10 کے مقصد کو مزید آگے بڑھانا بھی ہے۔
ایچ ای سی کی یہ پالیسی اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں خصوصی ضروریات کے حامل سٹوڈنٹس کے لئے کم از کم معیارات کا تعین کرتی ہے۔ جن میں انکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یونیورسٹی کے بنیادی ڈھانچے میں ضروری تبدیلیاں، ایکسیس ایبلٹی کمیٹی، ڈس ایبلٹی کوآرڈینیٹرز، داخلے اور امتحان میں سہولت، داخلے کا کوٹہ، رسورس سنٹرز کا قیام، فیس میں خصوصی رعایت، اساتذہ کی اس حوالے سے تربیت اور اکاموڈیشن وغیرہ شامل ہیں۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خصوصی ضروریات کے حامل طلبہ کے لیے اس پالیسی کا مقصد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جامع تعلیم کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا، اور تمام تعلیمی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں ایسے طلبہ کی شرکت کو آسان بنانا ہے۔ یہ لازمی ہے کہ کسی بھی طالب علم کو کسی معذوری کی بنیاد پر اس کی تعلیمی یا پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران کسی بھی مرحلے پر امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ یہ پالیسی تمام معذور طلبہ پر لاگو ہوتی ہے، بشمول اندراج شدہ طلبہ، ممکنہ طلبہ اور ایسے طلبہ جو اپنی تعلیم کے دوران معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔
اس پالیسی کے تحت ہائر ایجوکیشن کے تمام ادارے ہر سال دسمبر کے آخر اس پالیسی سے متعلقہ اقدامات کی رپورٹ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو جمع کروانے کے پابند ہیں۔ جسے جنوری کے آخر میں ہائر ایجوکیشن کمیشن شائع کرتی ہے۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کب تک 100 فیصد اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خصوصی ضروریات کے حامل افراد کے لیے بنائی اپنی پالیسی پر عمل درآمد کروانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اس سے ہر سال سینکڑوں خصوصی ضروریات کے حامل افراد اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے معاشرے کا فعال رکن بن سکیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔